حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کا نبوی حکم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے‘‘۔(احمد بن حنبل)
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والہانہ محبت کا اظہار فرماتے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین سے محبت کا والہانہ و بے ساختانہ اظہار بغیر کسی مقصد کے تھا؟ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس والہانہ اندازِ محبت میں بھی امتِ مسلمہ کے لئے ایک پیغام ہے۔ آیئے سب سے پہلے ایک حدیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس میں موجود پیغام پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام ایک روز سیدنا امام حسینؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل رہے تھے تو ایک شخص نے دیکھا تو دیکھتے ہی اْس نے کہا اے بیٹے مبارک ہو، کتنی پیاری سواری تمہیں نصیب ہوئی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سواری کا اچھا ہونا نظر آرہا ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنا پیارا، خوبصورت اور اعلیٰ ہے۔(جامع ترمذی)
حضرت یعلی العامری روایت کرتے ہیں کہ ہم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت پر گئے۔ گلی سے گزر رہے تھے، راستے میں بچے کھیل رہے تھے اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی ان بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آقا علیہ السلام نے جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو کھیلتے دیکھا تو ہر چیز کو نظر انداز کرکے یہ ارادہ کیا کہ دوڑ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پکڑنے کے لیے دوڑے، امام حسین رضی اللہ عنہ کبھی دوڑ کر اِدھر چلے جاتے اور کبھی دوڑ کے ادھر چلے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہیں پکڑنے کے لئے کبھی ایک طرف بھاگتے ہیں اور کبھی دوسری طرف بھاگتے ہیں۔ صحابہ کرام اور دیگر لوگ اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔
آقا علیہ السلام حضرت امام حسین ؓکو ہنساتے جا رہے ہیں اور انہیں پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور انہیں خوش کررہے ہیں۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پکڑ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اٹھا لیا، پھر انہیں چوما اور چوم کر آقا علیہ السلام نے فرمایا:’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے‘‘۔(احمد بن حنبل)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں ایک حقیقت بھی بیان فرمائی اور ایک دعا بھی دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے، اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور اِس میں آقا علیہ السلام نے دعا بھی کی کہ اللہ اس سے محبت کرے جو میرے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔
حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں، رسولؐ اللہ نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہاری مجھ سے وہی منزلت ہے، جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے ہے، فرق بس اتنا ہے کہ (حضرت ہارون نبی تھے اور) میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(بخاری، ابن ماجہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں، اس ذات (یعنی اللہ) کی قسم! جس نے دانہ پھاڑا (نباتات نکالی) اور مخلوقات پیدا کیں:میرے ساتھ نبی کریم ؐ نے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے (علیؓ کے) ساتھ محبت صرف مومن ہی کرے گا اور (مجھ سے) بغض صرف منافق ہی رکھے گا(ترمذی)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا زمانے بھر کی عورتوں کی سردار،نبی کریمؐ کی جگر گوشہ اور نسبتِ مصطفائی، سید الخلق رسول اللہ کی صاحبزادی اور حضراتِ حسنینؓ کی والدہ ہیں(سیر اعلام النبلاء )، جن کے متعلق رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے:فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔(بخاری، مسلم ) نیز وہ خود روایت کرتی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے اپنی وفات کے وقت مجھے یہ بشارت دی تھی: تم جنّتی عورتوں کی سردار ہو، سوائے مریم بنتِ عمران کے۔ (ترمذی)