قوم کی تعمیر قیادت کی تعمیر کے بغیر ممکن نہیں

’’لوگوں میں طاقت کی اتنی کمی نہیں جتنی مستقل ارادے کی ہے۔‘‘ یہ ایک واقعہ ہے کہ اکثر لوگوں کے اندر صلاحیت پوری طرح موجود ہوتی ہے ۔ مگر اس کا فائدہ وہ صرف اس لیے نہیں اٹھا پاتے کہ وہ استقلال کے ساتھ دیر تک جہدوجہد نہیں کر سکتے اور کسی واقعی کامیابی کے لیے لمبی جدوجہد فیصلہ کن طور پر ضروری ہے۔ اگر آپ اپنی کوششوں کا کوئی ٹھوس اور مفید نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے دن سے یہ سوچ لیجئے کہ آپ کو لمبی مدت تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر آپ کے اندر انتظار کی طاقت نہیں ہے تو آپ کو اپنے لیے کسی پائیدار کامیابی کی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔ زندگی کا راز یہ ہے … جتنا زیادہ انتظار اتنی ہی زیادہ ترقی۔

قومی زندگی کی ’’تعمیر‘‘ تھوڑے سے وقت میں بھی ہو سکتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مدت بھی درکار ہوتی ہے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کس قسم کی قومیت تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر قوم کے اندر فوری جوش پیدا کرنا مقصود ہے ۔ اگر محض منفی نوعیت کے کسی وقتی ابال کو آپ مقصد سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہیں۔ اگر عوامی نفسیات کو اپیل کرنے والے نعرے لگا کر تھوڑی دیر کے لیے ایک بھیڑ جمع کر لینے کو آپ کام سمجھتے ہیں۔ اگر جلسوں کی دھوم کانام آپ کے نزدیک قوم کی تعمیر ہے تو اس قسم کی قومی تعمیر ‘ اگر اتفاق سے اس کے حالات فراہم ہو گئے ہوں‘ آناً فاناً ہو سکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم کی تعمیر سے زیادہ قیادت کی تعمیر ہے کیونکہ اس قسم کے شور و شر سے وقتی طور پر کچھ قائدین کو تو ضرور فائدہ ہو جاتا ہے ۔ مگر انسانیت کے اس مجموعی تسلسل کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس کو قوم یا ملت کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو اس قسم کے طریقے گویا ایک قسم کا استحصال ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر وقت طور پر کچھ لوگ اپنی قیادت جما لیتے ہیں۔ یہ سستی لیڈری حاصل کرنے کا ایک کامیاب نسخہ ہے ‘ جس کو سطحی قسم کے لوگ نادانی کی بناء پر ذاتی حوصلوں کی تکمیل کے لیے اختیار کرتے ہیں۔

اگر ہم واقعی قوم کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم شاہ بلوط کا درخت اگانے اٹھے ہیں نہ کہ ککڑی کی بیل جمانے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو لازمی طور پر لمبا منصوبہ چاہتا ہے ۔ تھوڑی مدت میں اس کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اگر کوئی لیڈر ایسے نعرے لگاتا ہے تو وہ یا تو اس کی سادہ لوحی کی دلیل ہے یا اس کی استحصالی ذہنیت کی اور اگر قوم ایسی ہے جو لمبے انتظار کے بغیر اپنی تعمیر و ترقی کا قلعہ بنا بنایا دیکھنا چاہتی ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ ایسے قلعے صرف ذہنوں میں بنتے ہیں‘ عالم واقعہ میں نہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button