دولت کی فراوانی، بچوں کو بگاڑ سے کیسے بچائیں؟

کل جب آپ غمگین بیٹھے تھے تو کیا اس سے آپ کو کوئی فائدہ پہنچا تھا؟ ایک روز آپ کو اپنے بھائی کے فیل ہونے کی اطلاع ملی تو آپ بے حد پریشان ہو گئے تھے۔ کیا آپ کی اس پریشانی نے آپ کے بھائی کو پاس کرا دیا تھا؟ جب آپ کی پریشانی سے حالات میں کوئی فرق نہیں ہوتا تو پھر آپ اسے اپنے اوپر کیوں طاری کر لیتے ہیں‘ بہرحال پریشان ہونے اور خود پر پریشانی طاری کر لینے میں لطیف سا فرق ہے‘ اسے ضرور ملحوظ رکھیے۔ ’’پریشانی طاری کر لینے‘‘ سے انسان کی قوتِ عمل کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ البتہ احساسِ زیاںہونا کوئی بُری بات نہیں۔ یہ احساس ایک مثبت سوچ ہے جو آپ کو بہتر تدابیر اختیار کرنے کی راہ دکھاتی ہے ، مثلاً یہ کہ آپ کو اپنے جس بھائی کی امتحان میں ناکامی کی اطلاع ملی تھی‘ آپ اس کے لیے بہتر ٹیوشن کا انتظام کریں یا اس کی پڑھائی کی کمی کو دور کرنے پر خود توجہ دیں اور اسے کچھ وقت دیں اور اسے بہتر طالب علم بنانے کی کوشش کریں۔
آئیے! ذرا غموں اور پریشانیوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔

اگر آپ کے پاس بڑا مکان ہو تو کیا ضروری ہے کہ اس کا بڑا ہونا آپ کی پریشانیاں دور کر دے گا؟ کیا اس کی وسعت‘ اس کی صفائی ستھرائی کے کام کو بڑھا نہیں دے گی؟ کیا اس پر پراپرٹی ٹیکس کی کچھ مقدار بڑھ نہیں جائے گی؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ اپنے چھوٹے مکان کو وسعت نہ دیں۔ اپنی ضرورت کے مطابق ایسا ضرور کیجئے ‘ مگر اس کے ساتھ نئے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی ملحوظ رکھیے۔
کیا مال و دولت کی فراوانی ‘ بڑا عہدہ اور ذہین بچے آپ کی ساری پریشانیوں کا شافی علاج ہیں؟ ایسا سمجھنا درست نہیں۔ دولت بڑھتی ہے تو اسے سنبھالنے اور اسے مزید دولت پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے سے بھی نئی نئی الجھنیں جنم لیتی ہیں۔ اس پر مزید عائد ہونے والے ٹیکس بھی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ٹیکس بچانے کے لیے چند ہوشیار قسم کے وکلاء کی ضرورت پڑتی ہے اور ان وکلاء کو چونکہ آپ کے جملہ مالی راز معلوم ہوتے ہیں‘ اس لیے وہ اپنی مقررہ فیس پر کبھی اکتفا نہیں کرتے۔

دولت مند لوگوں کا ایک بڑا مسئلہ‘ اولاد کا بگاڑ ہوتا ہے۔ ان میں محنت سے جی چرانا‘ کاہل اور لاپروا ہو جانا اور مائلِ عیش و عشرت ہو جانا عام بیماریاں ہوتی ہیں۔ دولت کی فراوانی بچوں کو کلبوں اور ہوٹل بازی وغیرہ کی طرف لے جاتی ہے۔ والد چونکہ کاروبار میں مسلسل دھنستا چلا جاتا ہے ‘ اس لیے وہ ان کی نگرانی نہیں کر سکتا اور نہ ان کے ساتھ مل بیٹھ کران کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ ان کے ٹیوٹر رکھوا دے اور اگر ٹیوٹر بھی مالی ترغیب میں آ کر ان کا ہم شغل اور ہم ذوق بن جائے اور والد کو بیٹوں کے بارے میں ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ ملتی رہے تو پھر بقول شاعر
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے‘ اس آگ کو کون ٹھنڈا کرے ؟

لہٰذا دولت کو ’’آبِ حیات‘‘ یا ’’امرت دھارا‘‘ نہ سمجھئے۔ یہ جتنے مسائل حل کرتی ہے ‘ اس سے زیادہ مسائل پیدا بھی کرتی ہے۔
اس ضمن میں زیادہ واقعات ان خاندانوں سے متعلق ہیں جن کا سربراہ ‘ یعنی باپ کسی بیرونی ملک میں گیا ہوتا ہے۔ اس کے ڈالروں‘ پونڈوں یا ریالوں کی وجہ سے اہل خانہ کا معیارِ زندگی مصنوعی طور پر بلند ہو جاتا ہے۔ جوان اولاد ماں کے قابو میں نہیں رہتی۔ وہ گھر سے باہر نکل کرگلچھرے اڑاتی ہے‘ ان سے ماں بھی اتنی بے خبر ہوتی ہے جتنا کہ بیرونِ ملک بیٹھا ہوا باپ۔ مؤثر نگرانی نہ ہونے کے باعث اولاد کئی قسم کی آوارگیوں میں پڑجاتی ہے۔ باپ کما کما کربوڑھا ہو چکا ہے‘ وہ واپسی کا نام لیتا ہے تو سب پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ابو! آپ واپس گھر آ گئے تو گھر کیسے چلے گا؟ یعنی ہمارے اللّے تللّے کیسے جاری رہیں گے؟

بیوی اور اولاد کی مخالفت کے باوجود جو شخص گھر آ ہی گیا تو بگڑے ہوئے بچے اس کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں کیونکہ اس نے جو رقم بھیجی تھی وہ تو بچوں کے بڑھتے ہوئے معیارِ زندگی کی بھٹی میں جل گئی‘ اندوختہ تو ہے نہیں‘ اب خاندان کھائے کیا؟ جوان اولاد کو روک ٹوک کرتا ہے تو اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button