والدہ سب سے زیادہ حسنِ سلوک کی مستحق

والد اور والدہ دونوں کے حقوق مساوی ہیں یا حسنِ سلوک کے اعتبار سے ان کے مابین کچھ فرق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ والدہ انسان کے حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے‘ اس لیے کہ حمل‘ وضع حمل اور پرورش کی تین تکلیفیں ایسی ہیں کہ جو صرف ماں ہی برداشت کرتی ہے، ان میں مرد کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ سورۂ احقاف میں یہ حقیقت یوں واضح کی گئی ہے:
’’اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور بڑی مشقت سے اسے جنا‘ اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اپنی کمالِ قوت کے زمانے کو اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کی احسان مندی کا ذکر اپنی احسان پذیری کے ساتھ کیا ہے۔ والدہ (ماں) کے بلند مقام کا بخوبی پتا اس حدیث سے چلتا ہے‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ نے دریافت کیا:
’’میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری والدہ حسنِ سلوک کی زیادہ مستحق ہے۔‘‘ اس نے پوچھا، پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ’’تمہاری والدہ۔‘‘ اس نے پوچھا، پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ’’تمہاری والدہ۔‘‘ چوتھی مرتبہ سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ’’پھر تمہارا باپ‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ حسنِ سلوک اور احسان میں ماں‘ باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ حق دار ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ماں اولاد کے لیے تین ایسی مشقتیں اٹھاتی ہے، جس میں مرد کا کوئی خاص حصہ نہیں ہوتا‘ یعنی حمل کی‘ جننے کی اور دودھ پلانے کی۔
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’قضا کو صرف دعا ہی رد کر سکتی ہے اور عمر میں اضافہ صرف نیکی ہی سے ہو سکتا ہے۔‘‘
چونکہ ماں باپ کی خدمت بہت بڑی نیکی ہے اس لیے اس سے عمر میں اضافہ ہوگا۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ جس طرح والدین سے حسنِ سلوک اس قدر فضیلت کا باعث ہے کہ اس سے رزق میں فراوانی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے اسی طرح والدین کی نافرمانی اور ان سے حسنِ سلوک کا برتاؤ نہ کرنا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے کہ انسان اس سے رحمت الٰہی سے دور اور جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول اکرم ﷺ منبر پر چڑھے اور جب آپ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو کہا: ’’آمین‘‘ جب آپ نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی کہا: ’’آمین‘‘ پھر جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی کہا : ’’آمین‘‘ ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میرے پاس جبریل ؑآئے اور کہا: اے محمد (ﷺ) جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور (روزے رکھ کر) اپنے گناہ نہ بخشوائے اللہ اسے اپنی رحمت سے دور رکھے۔ میں نے کہا: آمین۔ اور جو شخص اپنے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کو (بڑھاپے) میں پائے اور (ان سے حسنِ سلوک نہ کرنے کی وجہ سے) وہ آگ میں داخل ہو جائے، اللہ اسے اپنی رحمت سے دور رکھے۔ میں نے کہا: آمین۔ اور جس آدمی کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے او روہ آپ پر درود نہ پڑھے ، اللہ اسے بھی اپنی رحمت سے دور رکھے۔ میں نے کہا: آمین۔
یہ کس قدر خوفناک بات ہے کہ جبریل علیہ السلام دعا کریں اور نبی کریم ﷺ ان کی دعا پر آمین کہیں۔ اب ان تینوں دعاؤں کی قبولیت میں کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے، ان لوگوں کو فوراً توبہ کر لینی چاہیے جو بوڑھے ماں باپ کو دکھ دیتے ہیں، ستاتے ہیں۔ صحیح بخاری میں سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتی ہیں:
میری والدہ میرے پاس آئیں ، وہ ابھی مشرکہ تھیں، ایمان نہیں لائی تھیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ یہ ابھی تک مشرکہ ہیں، اب ان کے بارے میں میرے لیے کیا حکم ہے، کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کریں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button