مہمان نوازی: رزق میں کشادگی اور برکت کا باعث
قوموں کی قابل فخر روایات میں مہمان نوازی کو خاص اہمیت حاصل ہے، ہر دور کے لوگ مہمان نوازی کو اپنے لئے باعث شرف سمجھتے تھے، آج مہمان صرف اسے سمجھا جاتا ہے جو رشتہ دار، دوست احباب یا تعلق والا ہو حالانکہ تاریخ میں مہمان نوازی کی ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ جب گھر میں کوئی مہمان آ گیا، قطع نظر اس کے کہ وہ جاننے والا تھا یا نہیں، اہل خانہ نے اس کا بھر پور استقبال کیا اور جو کچھ گھر میں تھا اس کے سامنے پیش کر دیا، اگر گھر میں کچھ میسر نہیں تھا تو قرض لیکر بھی اس کی مہمان نوازی کی، کیونکہ مہمان نوازی نہ کرنے کو لوگ اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے، ہر شخص مہمان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار تھا،لوگ مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب ہوجاتے تھے اور اپنے مہمان کے لئے اپنی قیمتی سے قیمتی چیز نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اسی طرح یہ رواج بھی عام تھا کہ لوگ کسی بھی گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے بلا جھجک کہہ دیتے کہ ہم مسافر ہیں اور ہم ایک یا دو رات کیلئے آپ کے پاس مہمان کے طور پر گزارنا چاہتے ہیں تو لوگ ان مہمانوں کی آمد کو اپنے کیلئے خوش بختی تصور کرتے ، اور دیدہ و دل راہ فرش کیے دیتے ۔آج کے ترقی یافتہ دور میں ہمارے معاشرے میں کئی ایسی قدریں ہیں جو دم توڑ رہی ہیں۔ موجودہ دور میں اکثرلوگ مہمانوں سے نظریں چراکر بھاگتے نظرآتے ہیں، مہمان نوازی اگرچہ ہر مذہب میں ہی باعث شرف سمجھی جاتی ہے تاہم اسلام نے مہمان نوازی پر جو بشارتیں دی ہیں کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نیہں ملتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ مہمان کی خاطر تواضع کرے‘‘(بخاری)
مہمان کے آداب میں سے ہے کہ جب مہمان آپ کے گھر آئے تو سب سے پہلے اس سے سلام و دعا کیجئے اور خیروعافیت معلوم کیجئے۔جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم نے جو اب میں سلام کیا۔(الذاریات: 24،25)
مہمانوں کی خاطر و مدارات کرنا یہ انبیاء کی سنت ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے ساتھ کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ پھر وہ جلدی سے گھر میں جاکر ایک موٹا تازہ بچھڑاذبح کرکے بھنواکرلائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔(سورہ الذاریات: 26،27)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان کی عزت و اکرام، خاطر و مدارات اپنی حیثیت کے مطابق کرنا ضروری اور واجب ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمان جب آئے تو حضرت ابراہیمؑ فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جوموٹا تازہ بچھڑا انہیں میسر تھا اسی کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کردیا۔ اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’لوط علیہ السلام نے کہا: بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں مجھے رسوانہ کرو۔ خدا سے ڈرواور میری بے عزتی سے باز رہو‘‘۔ (الحجر: 68۔69)
حضرت ابو شریح فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو تم میں سے اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے،اور جو اللہ پر اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کہ عزت کرے، مہمان کی خاطر مدارات (کی مدت) ایک دن ایک رات ہے،اور عام ضیافت(میزبانی) کی مدت تین دن ہے،اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ صدقہ ہے۔اور (مہمان) کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے پریشانی میں مبتلا کردے۔
اس حدیث میں ایمان بِاللہ اور ایمان بالآخرت کے دو تقاضے بیان کئے گئے ہیں:
(1) زبان کی حفاظت ،یعنی غیبت،بدکلامی اور فضول یا وہ گوئی سے پرہیز کرتے ہوئے اچھے مصرف میں زبان کا استعمال۔
(2) فیاضی اور سخاوت نفس،اس کی ایک شکل یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر اس کے گھر میں ٹھہرنا چاہے تو بجائے انقباض اور تنگ دلی کے وسعت قلب کے ساتھ اس کے کھانے پینے اور قیام کا اہتمام کیا جائے۔ساتھ ہی یہ بھی تلقین کی گئی ہے کہ مہمان کو بھی اتناخود دار ہونا چاہئے کہ تین دن سے زیادہ کا بوجھ اپنے میزبان پر نہ ڈالے۔
اس طرح اگر میزبان کی طرف سے فیاضی کا برتاؤ اور مہمان کی جانب سے خود داری کا اظہار ہو تو اجتماعی زندگی میں ایک خوش گوار فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ مہمان کے آنے پر خوشی اور محبت کا اظہار کیجئے اور نہایت خوش دلی، وسعت قلب اور عزت واحترام کے ساتھ ان کا استقبال کیجئے۔تنگ دلی، بے رخی، سردمہری اور کڑھن کا اظہار ہرگز نہ کیجئے۔خاطر تواضع کرنے میں وہ ساری ہی باتیں داخل ہیں، جو مہمان کے اعزاز واکرام، آرام وراحت،سکون ومسرت اور تسکینِ جذبات کے لیے ہوں،خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا،ہنسی خوشی کی باتوں سے دل بہلانا،عزت واکرام کے ساتھ اس کیلئے رہنے کا انتظام کرنا۔اور فراخی کے ساتھ کھانے پینے کا بہتر سے بہترانتظام کرنا اور خودبنفسِ نفیس خاطر مدارات میں لگے رہنا، یہ سب باتیں ’’اکرام ضیف‘‘ میں داخل ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے پاس جب مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود ان کی خاطر داری فرماتے۔اسی طرح جب آپ مہمان کو اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے ’’ اور کھایئے اور کھایئے‘‘۔ جب مہمان خوب آسودہ ہوجاتا اور انکار کرتا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصرار سے باز آتے۔
مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کیجئے، تنگ دلی، کڑھن اور کوفت محسوس نہ کیجئے۔ مہمان زحمت نہیں بلکہ رحمت اور خیرو برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خدا جس کو آپ کے یہاں بھیجتا ہے اس کا رزق بھی اتاردیتا ہے، وہ آپ کے دستر خوان پر آپ کی قسمت کا نہیں کھاتا بلکہ اپنی قسمت کا کھاتا ہے اور آپ کے اعزاز و اکرام میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
حضرت ابو الاحوص جشمی اپنے والد کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:’’ اگر کسی کے پاس میرا گزر ہو اور وہ میری ضیافت اور مہمانی کا حق ادا نہ کرے اور پھر کچھ دنوں کے بعد اس کا گزر میرے پاس ہو تو کیا میں اس کی مہمانی کا حق ادا کروں؟ یا اس کی بے مروتی اور بے رخی کا بدلہ اسے چکھاؤں؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ تم بہرحال اس کی مہمانی کا حق ادا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حال میں مہمان کا خیال رکھا جائے۔ اگر آپ کے مہمان نے کبھی کسی موقع پر آپ کے ساتھ بے مروتی اور روکھے پن کاسلوک کیا ہو تب بھی آپ اس کے ساتھ نہایت فراغ دلی، وسعت ظرفی اور فیاضی کا سلوک کیجئے اور حتی الامکان اس کی میزبانی میں کوئی کمی مت کیجئے۔
مہمان نوازی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کے تمام عیوب پر پردہ ڈال دیتی ہے جو آدمی اپنے مہمان کی اچھی میزبانی کرتا ہے وہ شخص مہمان کے دل میں اس قدر جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ مہمان ہمیشہ اس کی تعریف کرتا ہے۔ جب کبھی اس کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کی تعریف بغیر کئے نہیں رکتا۔
حضرات صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین اسی طرح ائمہ کرام اور اکابر علماء کے یہاں میزبانی کی نادر و نایاب مثالیں ملتی ہیں۔ایک انصاری صحابی کا مشہور واقعہ ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو بہلاکر سلادیا او ر جب مہمان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو بہانے سے چراغ بجھادیا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ گئے تاکہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں۔
صحابہ کی مہمان نوازی صرف مہمانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ دشمن بھی اس سے مستفید ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ جنگ کے قیدیوں سے بھی یہی سلوک تھا۔ چنانچہ ایک شخص ابوعزیز بن عمیر جو جنگ بدر میں قید ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارہ کرلیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اگر ان کے پاس روٹی کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا تو وہ مجھے دے دیتے اور خود نہ کھاتے تھے اور اگر میں تامل کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے۔(ابن ہشام)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو وفود آتے آپ ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضرہوا۔ تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میزبانوں نے تمہاری مدارت کیسی کی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔(مسند احمد)