لیلۃ القدر: رحمت و مغفرت کی رات کو کیسے قیمتی بنائیں؟
اللہ کریم نے اس امت کی فضیلت کیلئے امت کو اطاعت وبندگی اور اعمال ِصالحہ کے لیے بے شمار مواقع فراہم کیے ہیں، تاکہ بندے اللہ کی رحمت ومغفرت اور جہنم سے خلاصی جیسے انعامات سے مستفید ہوں، ان بابرکت اوقات میں سے ایک رمضان المبارک کا مہینہ ہے ماہِ رمضان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس ماہ میں شبِ قدر ہے، جس میں اللہ تعالی نے برکت عطا فرمائی اور اس رات کو دیگر تمام راتوں پر فضیلت وبرتری دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کرنا شروع کیا، اور تمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔اس میں فرشتے اور روح القدس ہر کام کے انتظام کے لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔یہ رات طلوع فجر تک امن وسلامتی ہے۔احادیث نبویہ میں بھی شبِ قدر کے بے شمار فضائل وارد ہیں۔ صحیحین کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے،جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:شب قدر کو عشرہ اخیرہ میں تلاش کرو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا سات راتیں باقی رہ جائیں، یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس رات کا علم اپنے بندوں سے مخفی رکھا ہے، تاکہ ان راتوں میں بندے عبادت واذکار کے ذریعے خوب عمل کریں اور اجر وثواب کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کرے۔اسی طرح اس رات کو بندوں سے مخفی رکھنے میں بندوں کی آزمائش بھی مقصود ہے تاکہ اس رات کے طلبگار کو محنت ومشقت پر اس رات کے فضائل حاصل ہوں ۔
لیلۃ القدر میں عبادت کرنے والوں کوفرشتوں کا سلام
اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں فرشتے مسلمانوں کی زیارت کریں گے اور آ کر سلام عرض کریں گے فرشتے جنت کے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے اور لیلۃالقدر میں یہ ظاہر فرمایا کہ اگر تم میری عبادت میں مشغول ہو جائو تو آخرت تو الگ رہی دنیا میں بھی فرشتے تمہاری زیارت کو آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے ۔اس عظیم الشان رات کی عظمت و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل ا للہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ: جب شب قدر آتی ہے تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام فرشوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر آتے ہیں اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کیلئے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے یا بیٹھے ہوئے اللہ تعالی کے ذکر اور عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ جب کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ فرشتے ان بندں سے مصافحہ بھی کرتے ہیں ۔ کتنا خوش نصیب اور بلند اقبال ہے وہ بندہ!جو اس رات کو اپنے پروردگار کی یادمیں بسرکرتا ہے۔ جبرائیل امین اور فرشتے اس کے ساتھ مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کرنے کیلئے آسمان سے اتر کر اس کے پاس آتے ہیں او ر اس کی مغفرت و بخشش کیلئے دعائیں مانگتے ہیں۔
لیلۃ القدر میں امور کائنات کی تقسیم
علامہ قرطبی مجاہد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں زندگی، موت اور رزق وغیرہ کے احکام مدبراتِ امور کے حوالے کر دیتا ہے ۔ یہ چار فرشتے ہیں اسرافیل، میکائیل، عزرائیل اور جبرائیل علیہم السلام۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ اس سال جس قدر بارش ہونی ہے ، جس قدر رزق ملنا ہے اور جن لوگوں کو جینا یا مرنا ہے اس کو لوحِ محفوظ سے نقل کر کے لکھ دیا جاتا ہے حتی کہ لیلۃ القدر میں یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ کون کون شخص اس سال بیت اللہ کا حج کرے گا، ان کے نام ان کے آبا کے نام لکھ دئے جاتے ہیں ۔ نہ ان میں کوئی کمی کی جاتی ہے نہ کوئی اضافہ۔حضرت ابوسعیدخدری ؓروایت کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے رمضان کے پہلے عشرے کااعتکاف کیاپھردوسرے عشرے کااعتکاف چھوٹے خیمہ میں کیااس اعتکاف کے دوران سرمبارک خیمہ سے نکال کرفرمایامیں نے پہلے عشرہ کااعتکاف کیاتومیں لیلۃ القدرکو تلاش کرتارہاپھرمیں نے دوسرے عشرے کا اعتکاف کیاتومجھ سے ایک فرشتہ نے آکرکہاکہ لیلۃ القدرتورمضان کے آخری عشرہ میں ہے اب جومیری سنت کے اتباع (اعتکاف) کاارادہ رکھتاہے اسکوچاہیے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے مجھے یہ رات خواب میں دکھائی گئی ہے لیکن بعدمیں اسکاخیال میرے ذہن سے محوکردیاگیااورصبح کومیں نے دیکھاکہ میں گیلی کیچڑ جیسی زمین میں محوسجدہ ہوں لہذا!تم اس (لیلۃ القدر)کوآخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلا ش کروراوی کہتے ہیں کہ اس وقت بارش ہوئی تھی اورمسجدنبوی کی کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چھت کے ٹپکنے کی وجہ سے فرش پرکیچڑہوئی تھی اورمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پرپانی اورمٹی کا اثر دیکھا تھا اوریہ اکیسویں تاریخ کی صبح تھی۔حضرت ابن عمر ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چنداصحاب نے خواب میں شب قدرکورمضان کی آخری سات راتوں کو دیکھا اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں تمہارے خوابوں میں مماثلت دیکھتاہوں تم میں سے شب قدرکوتلاش کرنے والاماہ رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے ۔ (مسلم شریف)
حضرت زربن جیش نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے کہاکہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں کہ جوشخص سال بھرمیں راتوں کوقیام کریگاوہ لیلۃ القدرکوپائے گاآپ نے فرمایااللہ تعالی ان پررحم کرے شایداس میں انکاارادہ ہوکہ لوگ اسی پربھروسہ نہ رکھیں وہ جانتے ہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے اوریہ رات ستائیسویں رمضان کی ہے پھراس بات پرحضرت ابی بن کعبؓ نے قسم کھائی میں نے پوچھاآپ کویہ کیسے معلوم ہواجواب دیاکہ ان نشانیوں سے جوہم کوبتائیں گئی ہیں کہ اس دن سورج شعاعوں کے بغیر نکلتا ہے اور روایت میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب ؓنے کہااس خداکی قسم جسکے سوا کوئی معبود نہیں کہ یہ رات رمضان میں ہی ہے آپ نے اس پران شااللہ بھی نہیں فرمایااورپختہ قسم کھالی پھرفرمایا مجھے خواب معلوم ہے کہ وہ کونسی رات ہے جس میں قیام کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم ہے یہ ستائیسویں رات ہے اسکی صبح کو سورج سفیدرنگ کا نکلتا ہے اورتیزی زیادہ نہیں ہوتی۔حضرت معاویہ ابن ابی سفیانؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے لیلۃ القدرکے بارے میں فرمایاکہ وہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے ۔(ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت عمر ؓکی خدمت میں حاضرہواوہاں دیگرصحابہ کرام علہیم الرضوان بھی تشریف فرماتھے حضرت عمرؓ نے ان سے سوال کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے اس فرمان’’شب قدر‘‘کورمضان کے آخری عشر ے کی طاق راتوں میں تلاش کرواس کے بارے میں تم لوگوں کاکیاخیال ہے وہ کونسی رات ہوسکتی ہے؟کسی نے کہااکیسویں،کسی نے کہا پچیسویں، کسی نے کہاستائیسویں،میں خاموش بیٹھاتھاحضرت عمر ؓنے فرمایابھائی تم بھی کچھ بولومیں نے عرض کیاجناب آپ ہی نے توفرمایاتھاکہ جب یہ بولیں توتم نہ بولناآپ نے فرمایابھائی تمہیں تواسی لئے بلوایاگیاہے کہ تم بھی کچھ بولومیں نے عرض کیاکہ میں نے سناہے کہ اللہ تعالی نے سات چیزوں کاذکرفرمایاہے چنانچہ سات آسمان پیدا فرمائے سات زمینیں پیدافرمائیں انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی انسان کی غذازمین سے سات چیزیں پیدافرمائیں(اس لئے میری سمجھ میں تویہ آتاہے کہ شب قدرستائیسویں شب ہوگی)حضرت عمرؓ نے فرمایاجوچیزیں تم نے ذکرکی ہیں ان کا توعلم ہمیں بھی ہے یہ بتلائوجوتم کہہ رہے ہوکہ انسان کی غذازمیں سے سات چیزیں پیدافرمائیں وہ کیاہیں؟میں نے عرض کیاکہ وہ اللہ تعالی کے اس ارشادمیں موجودہیں ترجمہ:ہم نے عجیب طورپرزمین کوپھاڑاپھرہم نے اس میں غلہ اور انگوراورترکاری اورزیتون اورکھجوراورگنجان باغ اورمیوے اورچارہ پیداکیا میں نے عرض کیا کہ حد ائق سے مرادکھجوروں درختوں اور میوئوں کے گنجان باغ ہیں اوراب سے مرادزمین سے نکلنے والاچارہ ہے جوجانور کھاتے ہیں انسان نہیں ۔حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایاکہ تم سے وہ بات نہ ہوسکی جواس بچہ نے کہہ دی جس کے سرکے بال بھی ابھی مکمل نہیں ہوئے بخدا میرابھی یہی خیال ہے جوکہہ رہاہے۔(شعب الایمان)
کون سی رات لیلۃ القدر ہے؟
شب قدر کی تعیین اٹھالی گئی ہے کہ وہ متعین طور پر معلوم نہیں ہے کب ہو! البتہ رمضان المبارک اور پھر خاص کر آخری عشرہ اور پھر اس میں بھی طاق راتوں میں اس کے ملنے کا زیادہ امکان ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے: ’’حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ طاق راتوں سے مراد ، 21، 23، 25، 27، 29 کی راتیں ہیں، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں راتوں کو عبادت کی کوشش کریں ، اگر پوری رات مشکل ہوتو کچھ وقت ، ورنہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر تراویح پڑھے اور اس کے بعد دو ، چار رکعت پڑھ کر سوجائے، یا سحری میں بیدار ہوکر دو چارر کعات تہجد پڑھ لے اورصبح فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لے تو اسے ان شاء اللہ شب قدر مل جائے گی۔
شبِ قدر کی تعیین اٹھانے کی ایک حکمت علماء نے یہ لکھی ہے کہ مختلف راتوں میں زیادہ سے زیادہ اعمال کی ترغیب مقصود ہے تاکہ امت مختلف طاق راتوں میں خوب عبادت کرے، ایسا نہ ہو کہ صرف ایک رات میں مخصوص وقت مخصوص عبادت کرلے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا ہے کہ آخری عشرہ داخل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کی راتیں جاگتے تھے اور اپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے اور کمربند کس لیا کرتے تھے۔ نیز فرماتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جتنی محنت فرماتے تھے اتنی محنت اور دنوں میں نہیں فرماتے تھے۔ لہٰذا امتی کو چاہیے وہ تمام طاق راتوں میں فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ، نفل نماز، تلاوت، درود شریف، دعاؤں اور دیگر اذکار کا خوب اہتمام کرے، اس رات کا کوئی خاص عمل نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے سبھی اعمال کیے جائیں اس طرح ہر قسم کے اعمال کا ثواب بھی حاصل ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ اسے شب قدر بھی حاصل ہوجائے گی۔
لیلۃ القدر کی پہچان کے مشاہدات
متعین طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ رات کونسی تاریخ میں ہے ،البتہ رمضان المبارک اور اخیر عشرہ میں ہونے کا رجحان زیادہ ہے ،بعض حضرات نے اپنے تجربات ،قیاس، فطری ذہانت کی وجہ سے کچھ تحریر کیا ہے جو افادہ کے لئے پیش خدمت ہے ۔
حضرت ابی بن کعب ؓاور حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: شب قدر ستائیسویں رمضان کو ہی ہوتی ہے اور حسن اتفاق یہ کہ سورہ قدر کے کلمات تیس ہیں اور رمضان کے مہینے کی زیادہ سے زیادہ تعداد بھی تیس دن ہے اور سلام ہِی کا (ہِی)جس سے مراد شب قدر ہے اس کا نمبر بھی ستائیس ہے جس کی و جہ سے بعض حضرات ستائیسویں کے قائل ہیں ۔
ابن العربی اور احمد مرزوق وغیرہ کا فرمان یہ ہے کہ: ماہ رمضان کے آخر میں اگر جمعہ اکائی راتوں میںآرہا ہے تو جمعہ سے پہلی والی رات ہی شب قدر ہوا کرتی ہے ۔
٭آقاصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایاکہ جوشخص شب قدرکوعبادت کرے گاقیامت کے دن میں اسکوجنت میں لے جانے کاضامن ہوں۔
٭اگرتم چاہتے ہوکہ تمہاری قبرنورسے روشن ہوتوشب قدرمیں عبادت کرو۔
٭جوشخص ستائیسویں رات کوزندہ رکھے گایعنی عبادت کرے گاتواللہ تعالی اس کے لئے ستائیس ہزارسال کاثواب لکھتاہے اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھربناتاہے جن کی تعداداللہ تعالی ہی جانتاہے جس شخص نے لیلۃ القدرمیں تھوڑی دیرعبادت کرلی وہ اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ محبوب ہے ساری زندگی روزہ رکھنے سے اورقسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے مجھے برحق نبی برحق بناکربھیجاہے کہ بے شک شب قدرمیں ایک آیت پڑھناباقی راتوں میں پورے قرآن پڑھنے سے اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ تراورپسندیدہے۔
٭شب قدرمیں آسمان کے دروازے کھلے رہتے ہیں جوبندہ شب قدرمیں نمازپڑھتاہے تواللہ تعالی اس کوہرایک تکبیرکے بدلے میں جنت میں ایک ایساسایہ داردخت عطافرمائے گاکہ اگرچلنے والا سوسال تک اسکے سائے میں چلتارہے تواس درخت کاسایہ ختم نہیں ہوگا۔اورہررکعت کے بدلے ایک مکان جنت میں موتیوں یاقوت وزبرجد اور للکا عطا فرمائے گا۔اورہرسلام کے بدلے میں جنتی چادروں میں سے ایک چادرعطافرمائے گا۔ (در الناصحین)حضرت علی المرتضیؓؓ شیرخدا فرماتے ہیں کہ جوشخص شب قدرمیں بعد نمازعشاسات مرتبہ اِناانزلنہ پڑھے اسے ہر مصیبت سے نجات ملے ہزارفرشتے اس کے لئے جنت کی دعاکرتے ہیں ۔
٭ستائیسویں شب کو سورۃ الملک سات مرتبہ پڑھنا مغفرت گناہ کے لئے بہت فضیلت کی بات ہے ۔
٭حضرت ابن عباس ؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص شب قدرمیں دورکعتیں اس طرح پڑھے کہ ایک مرتبہ سورۃ الفاتحہ اس کے بعدسات مرتبہ سورۃ الاخلاص پھر سلام پھیرنے کے بعد ستر مرتبہ استغفراللہ ربی منکل ذنب واتوب الیہ تک پڑھے تواس کاپڑھنے والا مصلے سے نہ اٹھ پائے گا کہ اللہ تعالی اس کے اوراس کے والدین کے گناہوں کومعاف فرمادے گا۔
٭جوشخص چاررکعت نمازنفل اس طرح پڑھے کہ ہررکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعدسورۃ القدرایک باراورسور الاخلاص ستائیس بارپڑھے تواپنے گناہوں سے ایساپاک ہو جاتا ہے۔جیسے کہ وہ ماں کے پیٹ سے آج پیدا ہواہے ۔اوراللہ تعالی اس کوجنت میں ہزارمحل عطافرمائے گا۔
٭ جوشخص چاررکعت نمازنفل اس طرح پڑھتاہے کہ سورۃ الفاتحہ کے بعدسور ۃالقدرتین باراورسور الاخلاص پچاس باراورسلام کے بعدسجدے میں جاکرایک بارپڑھے سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبرپھردعامانگے تودعاقبول ہوگی اورتمام گناہ معاف ہونگے۔
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ رات اکائی کی ہے یعنی اکیسویں یا تیئسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا آخری رات۔ یہ رات بالکل صاف اور ایسی روشن ہوتی ہے کہ گویا چاند چڑ ھا ہوا ہے ، اس میں سکون اور دلجمعی ہوتی ہے ، نہ سردی زیادہ ہوتی ہے نہ گرمی، صبح تک ستارے نہیں جھڑ تے ، اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی صبح کو سورج تیز شعاعوں سے نہیں نکلتا بلکہ چودہویں رات کی طرح صاف نکلتا ہے ۔ اسی سلسلے میں ایک اور روایت علامہ قرطبی رحمہ اللہ علیہ نے موطا امام مالک کے حوالے سے تحریر فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلی امتوں کی عمریں دکھائی گئیں ، آپ نے دیکھا کہ ان کے مقابل میں آپ کی امت کی عمریں کم ہیں اس سے آپ کو خوف ہوا کہ میری امت کے اعمال ان امتوں کے اعمال تک نہ پہنچ سکیں گے تو اللہ تعالی نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ان امتوں کے ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے ۔ اسی طرح ایک اور روایت حضرت علی بن عروہ ؓسے ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار اشخاص کا ذکر فرمایا جنہوں نے اللہ کی اسی برس عبادت کی اور ان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ کی نافرمانی میں نہیں گزرا، آپ نے ان چار اشخاص میں حضرت ایوب، حضرت حزقیل، حضرت یوشع اور حضرت زکریا علیہم السلام کا ذکر فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ سن کر تعجب ہوا تو جبرئیل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!آپ کی امت کو ان لوگوں کی اسی سال کی عبادت سے تعجب ہوا، اللہ تعالی نے آپ پر اس سے بہتر چیز نازل کر دی ہے اور سور قدر پڑ ھی اور کہا یہ اس چیز سے افضل ہے جس پر آپ کو اور آپ کی امت کو تعجب ہوا تھا۔
صلوٰۃ التسبیح شب قدر کا قیمتی تحفہ
نفل نمازوں میں صلوٰۃ التسبیح بہت عظیم الشان نماز ہے جس کی بڑی فضیلت اور بڑا ثواب ہے۔ چھوٹے بڑے‘ ہر قسم کے گناہوں کو مٹانے والی ہے۔ بڑے سے بڑے گنہگار کے لیے بخشش کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بڑی تاکید سے اس کی تعلیم دی ہے جو اس نماز کی فضیلت و اہمیت کے لیے کافی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عباس! میرے محترم چچا! کیا میں آپ کی خدمت میں ایک گرانقدر عطیہ اور ایک قیمتی تحفہ پیش کروں؟ کیا میں آپ کو ایک خاص بات بتاؤں؟ کیا میں آپ کے دس کام اور دس خدمتیں کروں؟ (یعنی آپ کو ایک ایسا عمل بتاؤں جس سے آپ کو دس عظیم الشان فائدے حاصل ہوں، وہ ایسا عمل ہے کہ) جب آپ اس کو کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ معاف فرما دیں گے۔ (۱)۔ اگلے بھی (۲)۔ پچھلے بھی (۳)۔ پرانے بھی اور (۴)۔ نئے بھی(۵)۔ بھول چوک سے ہونے والے بھی اور (۶)۔ دانستہ ہونے والے بھی (۷)۔ صغیرہ بھی اور (۸)۔ کبیرہ بھی (۹)۔ ڈھکے چھپے بھی اور (۱۰)۔ اعلانیہ ہونے والے بھی (وہ عمل صلوٰۃ التسبیح ہے۔
لیلۃالقدرکی خاص دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اگر مجھے شب قدر کا پتا چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہو : « اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ’’اے اللہ! تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو‘ پس معاف فرما دے مجھے بھی‘‘(ترمذی)
یہ نہایت جامع دعا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے آخرت کے مطالبہ سے معاف فر ما دیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔