یوم شہادت:امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہیں
امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ صغرسنی میں ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں آگئے اور دربار نبوت سے آخر تک جڑے رہے۔ دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بتوں کی پوجا کبھی نہیں کی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ سے پہلے کسی نے خدا کی عبادت نہیں کی۔ابتدائی عمر سے ہی حضور سے از حد زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت علیؓ کی اہمیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم اہم اور مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لیے حضرت علیؓ کو مامور فرماتے۔ علامہ سید ابوالحسن ندوی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اخلاق عالی پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی اورنسبی تعلق، ایک عمر کی رفاقت اور روز مرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو آپ کے مزاج افتاد طبع سے اور ذات نبوی کی خاص صفات و کمالات سے گہری مناسبت ہوگئی تھی، جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا، وہ آپ کے میلان طبع اور مزاج کے رخ کو بہت باریک بینی اور چھوٹی بڑی باتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے، جن کا آپ کے رجحان پر اثر پڑتا ہے، یہی نہیں بلکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے بیان کرنے اور ایک ایک گوشہ کواجاگر کرکے بتانے میں مہارت تھی، آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و رجحان اور طریق تامّل کو بہت ہی بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔‘‘
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راحت رسانی کے لیے ہر وقت بے چین اور مضطرب نظر آتے ، اپنے گھر فاقہ ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھنا ایک پل کے لیے گوارہ نہیں۔ یہاں تک کہ محنت و مشقت اور مزدوری کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راحت رسانی کا انتظام فرماتے۔ ابن عساکر کی روایت ہے کہ: ’’ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں فاقہ تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا تو وہ مزدوری کی تلاش میں نکل گئے، تاکہ اتنی مزدوری مل جائے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت پوری ہوجائے۔ اس تلاش میں ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور اس کے باغ کی سینچائی کا کام اپنے ذمہ لیا، مزدوری یہ تھی کہ ایک ڈول پانی کھینچنے کی اجرت ایک کھجور، حضرت علیؓ نے سترہ ڈول کھینچے۔ یہودی نے انہیں اختیار دیا کہ جس نوع کی کھجور چاہیں لے لیں،حضرت علیؓ نے سترہ عجوہ لیے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ فرمایا: یہ کہاں سے لائے؟، عرض کیا: یا نبی اللہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آج گھر میں فاقہ ہے اس لیے مزدوری کے لیے نکل گیا تاکہ کچھ کھانے کا سامان کرسکوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت نے اس پر آمادہ کیا تھا۔ عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے والا ایسا کوئی نہیں جس پر افلاس اس تیزی سے آیا ہو جیسے سیلاب کا پانی اپنے رخ پر تیزی سے بہتا ہے اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرے اس کو چاہیے کہ مصائب کے روک کیلئے ایک چھتری بنالے، یعنی حفاظت کا سامان کرلے۔‘‘
حضرت علی باوجود غربت و افلاس کے اپنی زوجہ محترمہ خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی راحت رسانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، خود بھوکے رہ جاتے مگر اپنی اہلیہ کے خورد و نوش کا انتظام فرماتے۔ یہاں تک کہ ان کی راحت رسانی کے لیے اپنے دونوں بیٹے حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو بھی ان سے دن بھر کے لیے جدا کردیتے تاکہ بچے کی محبت سے ماں کی ممتا متاثر نہ ہوسکے۔ خاندان نبوت کی مشکلات کا اندازہ اس طبرانی کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے : ’’حضرت فاطمہؓ نے بتایا کہ ایک روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر آئے اور فرمایا میرے بچے کہاں ہیں؟ (یعنی حسنؓ اور حسینؓ) سیدہ کائنات حضرت فاطمہؓ نے کہا: آج ہم لوگ صبح اٹھے تو گھر میں ایک چیز بھی ایسی نہ تھی جس کو کوئی چکھ سکے۔ ان کے والد نے کہا: میں ان دونوں کو لیکر باہر جاتا ہوں اگر گھر پر رہیں گے تو تمہارے سامنے روئیں گے اور تمہارے پاس کچھ ہے نہیں کہ کھلاکر خاموش کرو۔ چنانچہ وہ فلاں یہودی کی طرف گئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے، دیکھا یہ دونوں بچے ایک صراحی سے کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے بچا کھچا ادھ کٹا قسم کا کھجور ہے۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا: علیؓ اب بچوں کو گھر لے چلو، دھوپ بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ آج صبح سے گھر میں ایک دانہ نہیں ہے، تو اگر آپ یا رسول اللہ تھوڑی دیر تشریف رکھیں تو میں فاطمہؓ کے لیے کچھ بچے کھچے کھجور جمع کرلوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے، یہاں تک کہ فاطمہؓ کے لیے کچھ بچے کھچے کھجور جمع ہوگئے۔ حضرت علیؓ نے کھجور ایک کپڑے میں باندھ لیے۔‘‘
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کا المناک واقعہ
21 رمضان المبارک حضرت کی شہادت کا دن ہے ،مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت خوارج کے ہاتھوں ہوئی۔ یہ وہی گروہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں شامل تھا۔ بعد میں اس پارٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے اور خوارج نے اپنی جماعت الگ بنا لی۔ باغی پارٹی کے بقیہ ارکان بدستور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد و پیش میں موجود رہے تاہم ان کی طاقت اب کمزور پڑ چکی تھی۔
تین خارجی ابن ملجم، برک بن عبداللہ اور عمرو بن بکر تیمی اکٹھے ہوئے اور انہوں نے منصوبہ بنایا حضرت علی، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں قتل کر دیا جائے۔ انہوں نے اپنی طرف سے اپنی جانوں کو اللہ تعالی کے ہاتھ فروخت کیا، خود کش حملے کا ارادہ کیا اور تلواریں زہر میں بجھا لیں۔ ابن ملجم کوفہ آ کر دیگر خوارج سے ملا جو خاموشی سے مسلمانوں کے اندر رہ رہے تھے۔ اس کی ملاقات ایک حسین عورت قطامہ سے ہوئی ، جس کے باپ اور بھائی جنگ نہروان میں مارے گئے تھے۔ ابن ملجم ا س کے حسن پر فریفتہ ہو گیا اور اسے نکاح کا پیغام بھیجا۔ قطامہ نے نکاح کی شرط یہ رکھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا جائے۔ ایک خارجی شبیب نے ابن ملجم کو روکا بھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اسلام کے لیے خدمات کا حوالہ بھی دیا لیکن ابن ملجم نے اسے قائل کر لیا۔
اس نے نہایت ہی سادہ منصوبہ بنایا اور صبح تاریکی میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب فجر کی نماز کے لیے مسجد کی طرف آ رہے تھے تو اس نے آپ پر حملہ کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا۔ اس کے بقیہ دو ساتھی جو حضرت معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہما کو شہید کرنے روانہ ہوئے تھے، ناکام رہے۔ برک بن عبداللہ، جو حضرت معاویہؓ کو شہید کرنے گیا تھا، انہیں زخمی کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن انہوں نے اسے پکڑ لیا۔ حضرت عمروؓ اس دن بیمار تھے، اس وجہ سے انہوں نے فجر کی نماز پڑھانے کے لیے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا۔ خارجی عمرو بن بکر نے عمرو بن عاص ؓکے دھوکے میں خارجہ کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد وہ گرفتار ہوا اور مارا گیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا۔ جان کنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جوباتیں ارشاد فرمائیں، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ یہاں ہم طبری سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں:
آپ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا: ’’میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔
تیسرے بیٹے محمد بن حنفیہ سے فرمایا: ’’میں نے تمہارے بھائیوں کو جو نصیحت کی، تم نے بھی سن کر محفوظ کر لی؟ میں تمہیں بھی وہی نصیحت کرتا ہوں جو تمہارے بھائیوں کو کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وصیت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں(حسن و حسین)کی عزت و توقیر کرنا اور ان دونوں کے اس اہم حق کو ملحوظ رکھنا جو تمہارے ذمہ ہے۔ ان کی بات ماننا اور ان کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرنا۔‘‘
پھر حسنؓ و حسینؓ سے فرمایا:’’میں تم دونوں کو بھی محمد کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے محبت کرتا ہے‘‘
پھر خاص طور پر حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا’’میرے بیٹے!تمہارے لیے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، نماز وقت پر ادا کرنا، زکوٰۃ کو اس کے مصرف میں خرچ کرنا، وضو کو اچھی طرح کرنا کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی او ر زکوٰۃ نہ دینے والے کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ ہر وقت گناہوں کی مغفرت طلب کرنا، غصہ پینا، صلہ رحمی کرنا، جاہلوں سے بردباری سے کام لینا، دین میں تفقہ حاصل کرنا، ہر کام میں ثابت قدمی دکھانا، قرآن پر لازمی عمل کرتے رہنا، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا، نیکی کی تلقین اور برائیوں سے اجتناب کی دعوت دیتے رہنا اور خود بھی برائیوں سے بچتے رہنا‘‘
جب وفات کا وقت آیا تو پھر قرآنی آیات پر مشتمل وصیت فرمائی بسم اللہ الرحمن الرحیم!یہ وہ وصیت ہے جو علیؓ بن ابی طالب نے کی ہے۔ وہ اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسولؐ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیں، خواہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔ یقینا میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبردار لوگوں میں سے ہوں۔
حسن بیٹا!میں تمہیں اور اپنی تمام اولاد اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا رب ہے۔ اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ صرف اسلام ہی کی حالت میں جان دینا۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دوسرے باہمی تعلق رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ اپنے رشتے داروں سے اچھا سلوک کرنا، اس سے اللہ تم پر حساب نرم فرما دے گا۔ یتیموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا، ان پر یہ نوبت نہ آنے دینا کہ وہ اپنی زبان سے تم سے مانگیں اور نہ ہی تمہاری موجودگی میں پریشانی میں مبتلا ہوں۔ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اللہ سے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بھی ڈرنا کیونکہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے۔
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سی نصیحتیں فرمائیں جن میں خاص کر نماز، زکوۃ، جہاد، امر بالمعروف کی نصیحت تھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات یعنی غربا و مساکین اور غلاموں کے بارے میں خاص وصیت فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا:تمہارے موجود ہوتے ہوئے کسی پر ظلم نہ کیا جائے۔ اپنے نبی ؐکے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ پشت دکھانے، رشتوں کو توڑنے اور تفرقہ سے بچتے رہنا۔ نیکی اور تقوی کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور نافرمانی اور سرکشی میں کسی کی مدد نہ کرنا۔ اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اللہ تعالی تمہاری ، تمہارے اہل خاندان کی حفاظت کرے جیسے اس نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی تھی۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتا ہوں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیتیں ایسی ہیں کہ پڑھنے والے کا دل بھر آتا ہے۔ ان وصیتوں میں جو الفاظ ہیں، ان پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آپ کی رائے کیا تھی؟ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خاص کر اس بات کی تلقین فرمائی کہ صحابہ کرام کو ساتھ ملایا جائے، ان سے تفرقہ نہ پیدا کیا جائے اور انہی کے ساتھ رہا جائے خواہ اس کے لیے انہیں کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت حسن ؓنے یہی کیا اور قربانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی، جس پر ملت اسلامیہ قیامت تک فخر کرتی رہے گی۔
قاتل کے بارے وصیت کرتے ہوئے حضرت علی ؓ نے فرمایا: بنو عبدالمطلب!کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینا، اور یہ کہتے نہ پھرنا کہ امیر المومنین قتل کیے گئے ہیں تو ہم ان کا انتقام لے رہے ہیں۔سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔ حسن!اگر میں اس کے وار سے مر جائوں تو قاتل کو بھی ایک ہی وار میں ختم کرنا کیونکہ ایک وار کے بدلے میں ایک وار ہی ہونا چاہیے۔ اس کی لاش کو بگاڑنا نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم لوگ مثلہ سے بچو خواہ وہ بائولے کتے ہی کا کیوں نہ ہو۔ اور پھر اس عظیم مجاہد نے جس کی زندگی میدان جنگ میں گزری اپنی جان اکیس رمضان المبارک کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سپرد کر دی اور اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)
سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی کے درخشاں پہلو
سیدنا حضرت علی مرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ تحریک اسلامی کے عظیم قائد، نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی معتبر ساتھی، جاں نثار مصطفیٰ اور داماد رسولؐ تھے۔ آپ کی فضیلت کے باب میں ان گنت احادیث منقول ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بعض کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی کے صحن کی طرف کھلتے تھے ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان تمام دروازوں کو بند کر دو سوائے باب علیؓ کے، راوی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے چہ مگوئیاں کیں اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا : حمد و ثنا کے بعد فرمایا مجھے باب علیؓ کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم میں سے کسی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے خدا کی قسم نہ میں کسی چیز کو کھولتا اور نہ بند کرتا ہوں مگر یہ کہ مجھے اس چیز کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے پس میں اس حکم خداوندی کی اتباع کرتا ہوں۔ (مستدرک حاکم)
اصحاب رسول اخوت و محبت کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے تھے، یہ عظیم انسان حضورؐ کے براہ راست تربیت یافتہ تھے ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار کی تشکیل خود معلم اعظم حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی، حکمت اور دانائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے گھر کی باندی تھی، ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے رگ و پے میں موجزن تھا۔ مواخات مدینہ کی فضا سے اصحاب رسول کبھی باہر نہ آ سکے یہ فضا اخوت و محبت کی فضا تھی، بھائی چارے کی فضا تھی۔ محبت کی خوشبو ہر طرف ابر کرم کی طرح برس رہی تھی، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار میں کوئی فرق نہ تھا۔ اعتماد اور احترام کے سرچشمے سب کی روحوں کو سیراب کر رہے تھے اور عملا ثابت ہو رہا تھا کہ فکری اور نظریاتی رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں۔ غلط فہمیوں پر مبنی تفریق و دوری کی خودساختہ کہانیاں بعد میں تخلیق کی گئیں۔
شیر خدا فاتح خیبر
حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا : کل میں یہ جھنڈا (کہ جو کمانداری کی علامت ہے ) ایسے شخص کو عطا کروں گا کہ جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطافر مائے گا اور وہ شخص اللہ اور اللہ کے رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور اللہ کا رسولؐ اس کو دوست رکھتے ہیں، چنانچہ تمام صحابہ نے اس انتظار اور شوق میں پوری رات جاگ کر گزاری کہ دیکھئے کل صبح یہ سرفرازی کس کے حصہ میں آتی ہے اور جب صبح ہوئی تو ہر شخص اس آرزو کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جھنڈا اسی کو ملے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ پر نظر ڈال کر فرمایا کہ علیؓ ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ دراصل حضرت علیؓ آشوب چشم میں مبتلا ہوگئے تھے اور اس وجہ سے اس وقت وہاں حاضر نہیں تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آنکھوں نے ان کو پریشان کر رکھا ہے اور اس عذر کی بنا پر وہ یہاں موجود نہیں ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کو بھیج کر ان کو بلوالو ، چنانچہ حضرت علیؓ کو بلا کر لایا گیا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا اور وہ آنکھیں ایک دم اس طرح اچھی ہوگئیں جیسے ان میں کوئی تکلیف اور خرابی تھی نہیں ، اس کے بعد آپؐ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔ حضرت علیؓ (اس سرفرازی سے بہت خوش ہوئے اور ) بولے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ان لوگوں (دشمنوں سے ) اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اور نرمی وبردباری کے ساتھ چل کر ان (دشمنوں ) کے علاقہ میں پہنچو، پھر (سب سے پہلے ) ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو اللہ کے وہ حقوق بتاؤ جو اسلام میں ان پر عائد ہوتے ہیں اور پھر اگر وہ دعوت اسلام کو ٹھکرادیں تو ان سے جزیہ طلب کرو ، اگر وہ جزیہ پر صلح کرنے سے انکار کر دیں تو پھر آخر میں ان کے خلاف اعلان جنگ کرو اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں یا جزیہ دے کر اسلامی نظام کی سیاسی اطاعت قبول کرنے پر تیار نہ ہو جائیں، پس (اے علیؓ ) اللہ کی قسم ، یہ بات کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے ، تمہیں ملنے والے سرخ اور چوپائیوں سے کہیں بہتر ہے۔ (بخاری ومسلم )
سیدنا علیؓ بارے اصحاب بدر کی گواہی
روایات میں مذکور ہے کہ ان تیس صحابہ میں اصحاب بدر بھی موجود تھے، غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں نے بھی گواہی دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اور ہم نے سنا تھا اور دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر اونچا کیا اور ہم سب سے کہا تھا کہ مسلمانو!کیا تم نہیں جانتے کہ میں مسلمانوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا سچ فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے، آپ ہم سب کی جانوں سے بھی قریب تر ہیں، فرمایا سنو!میں اس کا عزیز ہوں جو علیؓ کو عزیز رکھتا ہے جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؓ بھی مولا ہے، اے مالک!تو بھی اس کا ولی بن جا جو علیؓ کو ولی جانے۔
جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلو والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کردیا۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہؓ کو پیش کردیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ
پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ آ جاؤ ہم مل کراپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی ایک جگہ پربلا لیتے ہیں۔ (آل عمران )
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خاطر سورج کا پلٹنا
حضرت اسما ء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی گئی اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا نہ فرمائی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ کیا تو نے نماز ادا نہیں کی؟ عرض کیا نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ بے شک علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول ؐکی اطاعت میں تھا پس اس پر سورج کو لوٹا دے۔ حضرت اسما ئرضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اس کو غروب کے بعد طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔
سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا علمی مقام ومرتبہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔(المستدرک)
یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول کریم ؐ سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ ان تینوں خلفا کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہیں۔
حضرت علی المرتضیٰ کے حکیمانہ فیصلے
قرآن وسنت اور فقہ واجتہاد میں گہری بصیرت کی بناء پر حضرت علی ؓمنصب قضاء کے لئے بہت زیادہ موزوں تھے۔ حضرت عمرؓفرمایا کرتے تھے کہ ’’ہم میں سے مقدمات کے فیصلے کے لئے سب سے موزوں حضرت علیؓ ہیں۔‘‘حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا :’’ہم (صحابہ)کہا کرتے تھے کہ مدینہ والوں میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والے حضرت علیؓ ہیں۔حضورنبی کریمؐ نے یمن کے قاضی کے طورپر حضرت علیؓکو مقرر فرمایا تھا۔ ان کے حق میں دعا بھی کی اور قضاء کے بنیادی اصول کی تعلیم بھی دی۔ حضورنبی کریمؐ نے انہیں فرمایاتھا:’’علی!جب تم دوآدمیوں کا جھگڑا چکانے لگو تو صرف ایک آدمی کا بیان سن کر فیصلہ نہ کرو۔ اس وقت تک اپنے فیصلے کو روکو جب تک دوسرے کا بیان بھی نہ سن لو۔‘‘حضرت عمرفاروقؓ نے بھی حضرت علیؓ کو مدینہ کا قاضی مقرر فرمایاتھا۔ حضرت علیؓ نے ماہر ، عادل اور قابل قاضی کے طور پر اپنے فرائض ادا کئے تھے۔خلافت راشدہ کے زمانہ میں حضرت علیؓخلیفہ اول ابوبکرصدیقؓ اور خلیفہ حضرت عمرؓ اور خلیفہ حضرت عثمانؓکے مشیر رہے تھے۔ حضرت علیؓکو مجلس شوریٰ میں شامل رکھا گیاتھا۔ حضرت عمرؓکو جب کوئی مشکل معاملہ پیش آجاتا تو حضرت علیؓ سے مشورہ کرتے تھے۔ ’’انہوں نے فرمایا تھااگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓہلاک ہوجاتا۔‘‘ حضرت علیؓکے عدالتی فیصلے اسلامی قانون کے بہترین نظائر کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لئے اہل علم نے ان کوتحریری صورت میں مدون کرلیا تھا۔
غلام کی پہچان میں انوکھا حربہ
یمن کے ایک آدمی نے اپنے لڑکے کو سفر پر بھیجا تو اس کے ساتھ ایک غلام بھی روانہ کیا ، راستے میں کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہوگیا ، کوفہ پہنچ کر غلام نے دعویٰ کردیا کہ یہ لڑکا میرا غلام ہے اور میں اس کا آقا ہوں، یہ کہہ کر اس نے لڑکے کو بیچنا چاہا ، جب یہ مقدمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اپنے خادم سے فرمایا : کمرے کی دیوار میں دو بڑے سوراخ بناؤ اور ان دونوں سے کہو : اپنے اپنے سر ان سوراخوں سے باہر نکالیں ، جب دونوں نے اپنے سر سوراخوں سے باہر نکال لئے ، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خادم سے فرمایا : رسول کریمؐ کی تلوار لے آؤ، خادم تلوار لایا تو آپ نے خادم سے کہا : غلام کا سر کاٹ ڈالو ، یہ سنتے ہی غلام نے فوراً اپنا سر پیچھے کرلیا جبکہ لڑکا اسی طرح کھڑا رہا ، یوں آپ کی حکمت عملی سے معلوم ہوگیا کہ ‘‘ غلام کون ہے؟ ‘‘ (خلفائے راشدین)
گواہ کی پہچان میں حکمت عملی
جھوٹے گواہ بھاگ گئے ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو چوری کے الزام میں لایا گیا ساتھ گواہی دینے کے لئے دو گواہ بھی موجود تھے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسرے کام کی طرف متوجہ ہوگئے پھر آپ نے جھوٹے گواہوں کے بارے میں فرمایا : جب میرے پاس جھوٹا گواہ آیا ہے تو میں نے اسے سخت سزا دی ہے ، (کچھ دیر بعد )آپ نے ان دونوں گواہوں کو طلب کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں جھوٹے گواہ پہلے ہی فرار ہوچکے ہیں لہذا آپ نے ملزم کو بری کردیا۔ (مصنف ابی شیبہ ، 14 / 548 ، رقم : 29426)
حسن تدبیر سے اونٹوں کی تقسیم کا فیصلہ
ایک مرتبہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس 3 آدمی آئے اور کہنے لگے : ہمارے پاس 17 اونٹ ہیں ، ایک کا حصہ کل اونٹوں کا آدھا (2 / 1) ہے دوسرے کا حصہ تہائی (3 / 1) ہے اور تیسرے آدمی کا حصہ سب اونٹوں میں نواں (9 / 1) ہے ، آپ ہمارے درمیان اونٹ تقسیم کیجئے مگر شرط یہ ہے کہ انہیں کاٹنا نہ پڑے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے ایک اونٹ منگوایا ، اب 18 اونٹ ہوگئے پہلا شخص جس کا حصہ تمام اونٹوں میں آدھا تھا اسے 18 کے آدھے یعنی 9 اونٹ دے دیئے ، دوسرا شخص جس کا حصہ تہائی تھا، اسے 18 کا تہائی یعنی 6 اونٹ دے دئیے، پھر تیسرا شخص جس کا حصہ کل اونٹوں میں نواں تھا اسے کل اونٹوں کا نواں حصہ یعنی 18 میں سے 2 اونٹ دے دیئے اس طرح آپ نے حسن تدبیر سے ایک مشکل مسئلے کا فیصلہ کردیا اور 9 ، 6 ، اور 2 اونٹ ملاکر کل 17 اونٹ ان تینوں میں تقسیم بھی کردئیے اورکسی اونٹ کو کاٹنا بھی نہ پڑا ، ایک اونٹ جو باقی بچا اسے بیت المال میں واپس پہنچا دیا گیا۔ (خلفائے راشدین)