فتح مکہ: حقوق انسانی اور احترام انسانیت کا عظیم دن
فتح مکہ وہ عظیم فتح ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے دین کو ، اپنے رسولؐ کو ، اپنے لشکر کو اور اپنے امانت دار گروہ کو عزت بخشی اور اپنے شہر کو اور اپنے گھر کو ، دنیا والوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا ہے۔ کفار ومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی، اور اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ روشنی اور چمک دمک سے جگمگا اٹھا۔قریش صلح حدیبیہ کا پیمان توڑ چکے تھے۔ دس سالہ صلح کا عہد انہوں نے بہت جلد پامال کر دیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ آنحضرت ؐ نے مکہ کا قصد کر لیا تھا۔
اس میں شبہ نہیں کہ قریش اور ان کے حلیفوں نے جو کچھ کیا تھا وہ کھلی ہوئی بدعہدی اور صریح پیمان شکنی تھی۔ جس کی کوئی وجہ جواز نہ تھی، اسی لیے خودقریش کو بھی اپنی بدعہدی کا بہت جلداحساس ہوگیا اور انہو ں نے اس کے انجام کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں طے کیا کہ وہ اپنے سپہ سالار ابو سفیان کو اپنا نمائندہ بناکر تجدیدِ صلح کے لیے مدینہ روانہ کریں۔
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتایا کہ قریش اپنی اس عہد شکنی کے بعد اب کیا کرنے والے ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ’’گویا میں ابو سفیان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عہد کو پھر سے پختہ کرنے اور مدتِ صلح کو بڑھانے کے لیے آگیا ہے ‘‘ ادھر ابو سفیان طے شدہ قرارداد کے مطابق روانہ ہوکر عسفان پہنچا تو بدیل بن ورقا سے ملاقات ہوئی۔ بدیل مدینہ سے واپس آرہا تھا۔ ابو سفیان سمجھ گیا کہ یہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہوکر آرہا ہے۔ پوچھا : بدیل !کہا ں سے آرہے ہو ؟ بدیل نے کہا : میں خزاعہ کے ہمراہ اس ساحل اور وادی میں گیا ہوا تھا۔ پوچھا : کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں گئے تھے ؟بدیل نے کہا : نہیں۔
مگر جب بدیل مکہ کی جانب روانہ ہوگیا تو ابو سفیان نے کہا : اگر وہ مدینہ گیا تھا تو وہاں (اپنے اونٹ کو )گٹھلی کا چارہ کھلایا ہوگا۔ اس لیے ابو سفیان اس جگہ گیا جہاں بدیل نے اپنا اونٹ بٹھایا تھا اور اس کی مینگنی لے کر توڑی تو اس میں کھجور کی گٹھلی نظر آئی۔ ابو سفیان نے کہا : میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بدیل ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تھا۔
بہرحال ابو سفیان مدینہ پہنچا اور اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓکے گھرگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے بستر لپیٹ دیا۔ ابو سفیان نے کہا : بیٹی !کیا تم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا یا مجھے اس بستر کے لائق نہیں سمجھا ؟ انہوں نے کہا : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے اور آپ ناپاک مشرک آدمی ہیں۔ ابو سفیان کہنے لگا : اللہ کی قسم !میرے بعد تمہیں شر پہنچ گیا ہے۔
پھر ابو سفیان وہاں سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے بعد ابو بکر ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کریں۔ انہوں نے کہا : میں ایسا نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ عمر بن خطاب ؓکے پاس گیا اور ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا : بھلا میں تم لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کروں گا۔ اللہ کی قسم!اگر مجھے لکڑی کے ٹکڑے کے سوا کچھ دستیاب نہ ہوتو میں اسی کے ذریعے تم لوگوں سے جہاد کروں گا۔ اس کے بعد وہ حضرت علی ؓبن ابی طالب کے پاس پہنچا۔ وہاں حضرت فاطمہ ؓ بھی تھیں۔ اور حضرت حسن ؓبھی تھے، جو ابھی چھوٹے سے بچے تھے اور سامنے پھدک پھدک کر چل رہے تھے۔ ابوسفیان نے کہا : اے علیؓ! میرے ساتھ تمہارا سب سے گہرانسبی تعلق ہے۔ میں ایک ضرورت سے آیا ہوں۔ ایسا نہ ہوکہ جس طرح میں نامراد آیا اسی طرح نامراد واپس جاوں۔ تم میرے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کردو۔ حضرت علی ؓنے کہا : ابو سفیان !تجھ پر افسوس ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات کا عزم کرلیا ہے۔ ہم اس بارے میں آپ سے کوئی بات نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد وہ حضرت فاطمہؓ کی طرف متوجہ ہوا ، اور بولا: کیا آپ ایسا کرسکتی ہیں کہ اپنے اس بیٹے کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرکے ہمیشہ کے لیے عرب کا سردار ہوجائے ؟ حضرت فاطمہ ہ رضی اللہ عنہا نے کہا : واللہ !میرا یہ بیٹا ا س درجہ کو نہیں پہنچاہے کہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرسکے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کوئی پناہ دے بھی نہیں سکتا۔
ان کوششوں اور ناکامیوں کے بعد ابو سفیان کی آنکھوں کے سامنے دنیا تاریک ہوگئی۔ اس نے حضرت علیؓ بن ابی طالب سے سخت گھبراہٹ، کش مکش اور مایوسی وناامیدی کی حالت میں کہا کہ ابو الحسن !میں دیکھتا ہوں کہ معاملات سنگین ہوگئے ہیں، لہذامجھے کوئی راستہ بتاو ، حضرت علیؓ نے کہا : اللہ کی قسم !میں تمہارے لیے کوئی کار آمد چیز نہیں جانتا۔ البتہ تم بنوکنانہ کے سردار ہو ، لہذا کھڑے ہوکر لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کردو۔ اس کے بعد اپنی سرزمین میں واپس چلے جاو۔ ابو سفیان نے کہا : کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ میرے لیے کچھ کار آمد ہوگا۔ حضرت علیؓ نے کہا : نہیں اللہ کی قسم!میں اسے کار آمد تو نہیں سمجھتا ، لیکن اس کے علاوہ کوئی صورت بھی سمجھ میں نہیںآتی۔ اس کے بعد ابو سفیان نے مسجد میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ لوگو!میں لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کررہا ہوں، پھراپنے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ چلا گیا۔
قریش کے پاس پہنچاتو وہ پوچھنے لگے پیچھے کا کیا حال ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ بات کی تو واللہ!انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابو قحافہ کے بیٹے کے پاس گیا تواس کے اندر کوئی بھلائی نہیں پائی۔ اس کے بعد عمر بن خطابؓ کے پاس گیا تو اسے سب سے کٹر دشمن پایا۔ پھر علی ؓکے پاس گیا تو اسے سب سے نرم پایا۔ اس نے مجھے ایک رائے دی اور میں نے اس پر عمل بھی کیا۔ لیکن پتہ نہیں وہ کارآمد بھی ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے پوچھا : وہ کیا رائے تھی؟ ابو سفیان نے کہا: وہ رائے یہ تھی کہ میں لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کردوں۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔ قریش نے کہا : تو کیا محمدؐ نے اسے نافذ قرار دیا۔ ابو سفیان نے کہا : نہیں۔ لوگوں نے کہا:تیری تباہی ہو۔ اس شخص (علیؓ) نے تیرے ساتھ محض کھلواڑ کیا۔ ابو سفیان نے کہا:اللہ کی قسم!اس کے علاوہ کوئی صورت نہ بن سکی۔
حاطب ابی بلتعہ نے قریش کو ایک رقعہ لکھ کر یہ اطلاع دے بھیجی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حملہ کرنے والے ہیں۔ انہوں نے یہ رقعہ ایک عورت کو دیا تھا۔ اور اسے قریش تک پہنچانے پر معاوضہ رکھا تھا۔ عورت سر کی چوٹی میں رقعہ چھپا کر روانہ ہوئی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان سے حاطب کی اس حرکت کی خبر دے دی گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علیؓ، حضرت مقداد ؓ، حضرت زبیر ؓاور حضرت ابو مرثد غنویؓ کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جاو روضہ خاخ پہنچو۔ وہاں ایک ہودج نشین عورت ملے گی۔ جس کے پاس قریش کے نام ایک رقعہ ہوگا۔ یہ حضرات گھوڑوں پر سوار تیزی سے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو عورت موجود تھی۔ اس سے کہا کہ وہ نیچے اترے اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی خط ہے ؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ انہوں نے اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا۔ اس پر حضرت علیؓ نے اس سے کہا : میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کہا ہے نہ ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ تم یاتو خط نکالو ، یا ہم تمہیں ننگا کردیں گے۔ جب اس نے یہ پختگی دیکھی تو بولی : اچھا منہ پھیرو۔ انہوں نے منہ پھیر ا تو اس نے چوٹی کھول کر خط نکالا اور ان کے حوالے کردیا۔ یہ لوگ خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو اس میں تحریر تھا : (حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے قریش کی جانب ) پھر قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی خبر دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب کو بلا کر پوچھا کہ حاطب !یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم !میرے خلاف جلدی نہ فرمائیں۔ اللہ کی قسم !اللہ اور اس کے رسولؐ پر میرا ایمان ہے۔ میں نہ تو مرتد ہوا ہوں اور نہ مجھ میں تبدیلی آئی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ میں خود قریش کا آدمی نہیں۔ البتہ ان میں چپکا ہوا تھا اور میرے اہل وعیال اور بال بچے وہیں ہیں۔ لیکن قریش سے میری کوئی قرابت نہیں کہ وہ میرے بال بچوں کی حفاظت کریں۔ اس کے بر خلاف دوسرے لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں جو ان کی حفاظت کریں گے۔ اس لیے جب مجھے یہ چیز حاصل نہ تھی تو میں نے چاہا کہ ان پر ایک احسان کردوں جس کے عوض وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓنے کہا : اے اللہ کے رسولؐ !مجھے چھوڑیے میں اس کی گردن ماردوں۔ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت کی ہے اور یہ منافق ہوگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھو!یہ جنگِ بدر میں حاضر ہوچکا ہے۔ اور عمر !تمہیں کیا پتہ ؟ اللہ نے اہل بدر کو بخش دیا ہے۔ حضرت عمر ؓکی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔اس طرح اللہ کی مدد سے مسلمانوںنے جاسوسوں کو پکڑ لیا اور مسلمانوں کی جنگی تیاریوں کی کوئی خبرقریش تک نہ پہنچ سکی۔
خانہ کعبہ کی تعظیم کا دن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر الظہران سے مکہ روانہ ہوئے اور حضرت عباس ؓکو حکم دیا کہ ابو سفیان کو وادی کی تنگنائے پر پہاڑکے ناکے کے پاس روک رکھیں تاکہ وہاں سے گزرنے والی اسلامی فوجوں کو ابو سفیان دیکھ سکے۔ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔ ادھر قبائل اپنے اپنے پھریرے لیے گزر رہے تھے۔ جب وہاں سے کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ عباس ؓ!یہ کون لوگ ہیں؟ جواب میں حضرت عباس ؓبطورِ مثال کہتے کہ بنو سلیم ہیں۔ تو ابوسفیان کہتا کہ مجھے سلیم سے کیا واسطہ؟ پھر کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ اے عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ وہ کہتے: مزینہ ہیں۔ ابو سفیان کہتا: مجھے مزینہ سے کیا مطلب؟ یہاں تک کہ سارے قبیلے ایک ایک کرکے گزر گئے۔ جب بھی کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان حضرت عباسؓ سے اس کی بابت ضرور دریافت کرتا اور جب وہ اسے بتاتے تو وہ کہتا کہ مجھے بنی فلاں سے کیا واسطہ ؟ یہاں تک کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اپنے سبز دستے کے جلو میں تشریف لائے۔ آپ مہاجرین و انصار کے درمیان فروکش تھے۔ یہاں انسانوں کے بجائے صرف لوہے کی باڑھ دکھائی پڑ رہی تھی۔ ابو سفیان نے کہا : سبحان اللہ !اے عباس ؓ!یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا : یہ انصار و مہاجرین کے جلو میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ ابو سفیان نے کہا : بھلا ان سے محاذآرائی کی طاقت کسے ہے ؟ اس کے بعد اس نے مزید کہا کہ ابو الفضل! تمہارے بھتیجے کی بادشاہت تو واللہ بڑی زبردست ہوگئی۔ حضرت عباسؓ نے کہا : ابو سفیان! یہ نبوت ہے۔ ابو سفیان نے کہا: ہاں! اب تو یہی کہا جائے گا۔ اس موقع پر ایک واقعہ اور پیش آیا۔ انصار کا پرچم حضرت سعد بن عبادہ ؓکے پاس تھا۔ وہ ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو بولے
الیوم یوم الملحم الیوم تستحل الحرم
’’آج خونریزی اور مار دھاڑ کا دن ہے۔ آج حرمت حلال کر لی جائے گی۔‘‘
آج اللہ نے قریش کی ذلت مقدر کر دی ہے۔ اس کے بعد جب وہاں سے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو ابو سفیان نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ؐ!آپ نے وہ بات نہیں سنی جو سعد ؓنے کہی ہے؟ آپ نے فرمایا :سعد ؓنے کیا کہا ہے؟ ابو سفیان نے کہا: یہ اور یہ بات کہی ہے۔ یہ سن کر حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ یا رسول ؐاللہ !ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں سعد ؓقریش کے اندر مار دھاڑ نہ مچا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ آج کا دن وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی۔ آج کا دن وہ دن ہے جس میں اللہ قریش کو عزت بخشے گا۔ اس کے بعد آپ نے حضرت سعدؓ کے پاس آدمی بھیج کر جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے صاحبزادے قیس کے حوالے کردیا۔ گویا جھنڈا حضرت سعدؓ کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔ اور کہاجاتاہے کہ آپ نے جھنڈا حضرت زبیر ؓکے حوالے کردیا تھا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قریش کے لوگو!تمہارا کیا خیال ہے۔ میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں ؟ انہوں نے کہا : اچھا۔ آپ کریم بھائی ہیں۔ اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : تو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ لا تثرِیب علیکم الیوم آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
آبائی گھروں کی واپسی میں لشکر اسلام کا طرز عمل
اعدائے مکہ رحمت للعالمین کے لطف و کرم کا وہ بھی مشاہدہ کر رہے تھے۔ ہجرت کے بعد صحابہ کرام کی جائیدادوں، بلکہ خود آنحضرت کے ذاتی مکان پر بھی کفار قابض تھے۔ پسپا کفار کو یہی گمان گزرا کہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کے بعداب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ذاتی مکان کی جانب متوجہ ہوں گے۔خود صحابہ بھی اسی بات کے منتظر تھے کہ شاید ایسا ہو کیونکہ کفارکے قبضے سے اپنے مکانوں کو چھڑانے کا راستہ اسی صورت میں کھل سکتا تھا، جب خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے کھوئے ہوئے گھر کی طرف متوجہ ہوں اور اس طرح وہ بھی آنحضرت کی پیروی میں اپنے گھروں میں داخل ہونے کا موقع حاصل کر لیں۔ صحابہ کو اس حقیقت کا علم تھا کہ وطن سے ہجرت اور اپنے ما ل واسبا ب سے محروم ہوکرنبی کریم صلی اللہ علیہ سلم جب ہجرت فرما رہے تھے تو ان کی بے سروسامانی کا کیا عالم تھا۔ تن کے کپڑوں کے علاوہ ان کے پاس بوقت ہجرت اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے طویل عرصے تک اپنے مال و اسباب اور اپنے گھر سے محروم رہنے کے بعد کسی فتح یاب گروہ کے قائد کی اس سے بڑھ کر ترجیح اور کیا ہوگی کہ وہ اپنے گھر پر اپنا قبضہ بحال کر لے۔ لیکن قربان جائیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پرکہ انہوں نے اپنے ہی مکان کی بازیافت کے سلسلے میں کسی کارروائی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔جاں نثار صحابہ نے بھی پیروی رسول کو مقدم جانا اور انہوں نے بھی یہی کیا۔
اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کنجی بردارِ کعبہ کو یاد دلایا :’’تمہیں یاد ہے کہ ہجرت سے پہلے ایک بار میں نے یہ چابی تم سے مانگی تھی اور تم نے جواباً کہا تھا کہ :’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم)کیا تم سمجھتے ہو کہ اہلِ قریش اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ خانہ کعبہ کی کنجی تم جیسے لوگوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جائیں، جو اپنے آبائی دین کو تج چکے ہیں‘‘ میں نے کہا تھا:’’ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب یہ چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی؟‘‘ اور تم نے انگشت بہ دنداں ہوکر پوچھا تھا :’’ کیا قریش اتنے ذلیل ہونے والے ہیں کہ یہ کنجی تمہارے ہاتھوں میں دیکھنے کی نوبت آجائے گی؟‘‘۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا:’’ نہیں:(کسی کی ذِلّت کا سوال نہیں ہوگا، بلکہ جس دن یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی، اس دن قریش عزت پاچکے ہوں گے۔ ‘‘
غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ بات اس وقت کہی گئی تھی جب فریقِ ثانی ابھی ایمان نہیں لایا ہوا تھا۔اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ’’فتح‘‘ لازماً مغرور بنا کر پیش کرنے کا نام نہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ جنگی فتوحات سے یہ لازم نہیں آتا کہ فاتحین سارے ہی اِتظامی امور مفتوح اقوام سے لازماً چھین ہی لیں۔ ’’فتحِ مکہ‘‘ کے موقع پر سابق کنجی بردارکو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عظیم مثال پیش کی اور’’ فتح یابی ‘‘ پر شکرِ خداوندی کے لیے کسی طرح کے انتظامی امور کے ذمہ دار کو بدلنا ضروری نہیں سمجھا۔ دنیا نے اس سے یہ پیغام بھی لیا کہ مفتوح قوموں کی وفاداری پر بلا وجہ شک کرنے کے بجائے، یہ سوچنا ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر ان کی وفاداریاں کس طرح حاصل کی جانی چاہئیں۔ بعض صحابہ سوچ رہے تھے کہ مکہ میں چونکہ ہماری جائیداد و مکانات ہیں اور یہ ہمارا ہی وطن ہے، اس لئے یہاں بود و باش اختیارکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن وہ مزاج شناسِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا کیا ہے۔
فتح مکہ کے بعدپہلا حکم کیا دیا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو عصا کی نوک سے ایک ایک بت کو ٹھوکا دیتے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ پڑھتے جاتے’’جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا‘‘۔ یعنی ’’حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا، بے شک باطل نابود ہونے والا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا دروازہ کھلوایا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اندر داخل ہوئے، تکبیریں کہی اور نماز پڑھی۔ فتح مکہ کے بعد مسلمان عملاً عرب کے حکمراں بن چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اب قیصر و کسریٰ کے استحصالی معاشرے تھے جن کی بنیادوں میں انقلاب لاکر ان کی تعمیر نو کرنا تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں خطاب اہل مکہ سے نہیں، سب افراد نسل انسانی سے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے سوا اور کوئی الٰہ نہیں ہے، وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندہ کی مدد کی اور تمام جتھوں (جماعتوں) کو تنہا چھوڑ دیا۔ خبردار! ہر قسم کا مطالبہ خواہ وہ خون کا مطالبہ ہو یا مال کا۔ میرے پاؤں کے نیچے ہے (یعنی منسوخ اور ممنوع ہے)۔ البتہ بیت اللہ کی تولیت یاد ربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کے مناصب مستثنیٰ، یعنی جوں کے توں ہیں۔ اے گروہ قریش! آج کے دن اللہ نے تم سے جاہلیت کا غرور چھین لیا اور آباء و اجداد کے بل پر بڑائی حرام کردی۔ کل بنی نوع انسان آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ حجرات کی آیت تلاوت فرمائی۔ لوگو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرو۔ بے شک، اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے‘‘۔
قریش مکہ کیلئے عام معافی کا اعلان
اے قریش کے لوگو!اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا۔ سارے لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ بیشک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قریش پر ساری خبروں کی رسائی روک دی تھی۔ اس لیے انہیں حالات کا کچھ علم نہ تھا، البتہ وہ خوف اور اندیشے سے دوچار تھے اور ابو سفیان باہر جاجاکر خبروں کا پتہ لگا تا رہتا تھا۔ چنانچہ اس وقت بھی وہ اور حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقا خبروں کا پتہ لگانے کی غرض سے نکلے ہوئے تھے۔ حضرت عباس ؓکا بیان ہے کہ واللہ !میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار جارہا تھا کہ مجھے ابو سفیان اور بدیل بن ورقا کی گفتگوسنائی پڑی۔ وہ باہم ردوقدح کررہے تھے۔ ابو سفیان کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم !میں نے آج رات جیسی آگ اور ایسا لشکر تو کبھی دیکھا ہی نہیں، اور جواب میں بدیل کہہ رہا تھا : یہ اللہ کی قسم!بنو خزاعہ ہیں۔ جنگ نے انہیں نوچ کر رکھ دیا ہے، اور اس پر ابو سفیان کہہ رہا تھا:خزاعہ اس سے کہیں کمتر ہیں کہ یہ ان کی آگ اور ان کا لشکر ہو۔ حضر ت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے ا س کی آواز پہچان لی اور کہا : ابو حنظلہ ؟ اس نے بھی میری آواز پہچان لی اور بولا : ابو الفضل ؟ میں نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : کیا بات ہے ؟ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ، میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لوگوں سمیت۔ ہائے قریش کی تباہی…واللہ !
اس نے کہا : اب کیا حیلہ ہے ؟ میرے ماں باپ تم پر قربان۔ میں نے کہا: واللہ!اگر وہ تمہیں پاگئے تو تمہاری گردن ماردیں گے۔ لہذا اس خچر پر پیچھے بیٹھ جاؤ۔ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس لے چلتا ہوں ، اور تمہارے لیے امان طلب کیے دیتا ہوں۔ اس کے بعد ابو سفیان میرے پیچھے بیٹھ گیا اور اس کے دونوں ساتھی واپس چلے گئے۔حضرت عباس ؓکہتے ہیں کہ میں ابو سفیان کو لے کر چلا۔ جب کسی الاو کے پاس سے گزرتا تو لوگ کہتے : کون ہے ؟ مگر جب دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر ہے اور میں اس پر سوار ہوں تو کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور آپ کے خچر پر ہیں۔ یہاں تک کہ عمر بن خطاب ؓکے الاؤکے پاس سے گزرا۔ انہوں نے کہا : کون ہے ؟ اور اٹھ کر میری طرف آئے۔ جب پیچھے ابو سفیان کو دیکھا تو کہنے لگے : ابو سفیان ؟ اللہ کا دشمن ؟ اللہ کی حمد ہے کہ اس نے بغیر عہدوپیمان کے تجھے (ہمارے )قابو میں کردیا۔ اس کے بعد وہ نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے۔ اور میں نے بھی خچر کو ایڑ لگائی۔ میں آگے بڑھ گیا۔ اور خچر سے کود کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاگھسا۔ اتنے میں عمر بن خطابؓ بھی گھس آئے اور بولے کہ اے اللہ کے رسول ؐ!یہ ابو سفیان ہے۔ مجھے اجازت دیجیے میں اس کی گردن ماردوں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسولؐ!میں نے اسے پناہ دے دی ہے۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر آپ کا سر پکڑ لیا۔ اور کہا : اللہ کی قسم آج رات میرے سوا کوئی اور آپ سے سرگوشی نہ کرے گا۔ جب ابو سفیان کے بارے میں حضرت عمرؓ نے بار بار کہا تو میں نے کہا : عمر ؓ!ٹھہرجاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عباس ؓ!اسے (یعنی ابوسفیان کو )اپنے ڈیرے میں لے جاؤ۔ صبح میرے پاس لے آنا۔ اس حکم کے مطابق میں اسے ڈیرے میں لے گیا اور صبح خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر کیا۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا: ا بو سفیان!تم پر افسوس ، کیا اب بھی تمہارے لیے وقت نہیں آیا کہ تم یہ جان سکو کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ، آپ کتنے بردبار ، کتنے کریم اور کتنے خویش پرورہیں۔ میں اچھی طرح سمجھ چکاہوں کہ اگر اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الہ ہوتا تو اب تک میرے کچھ کام آیا ہوتا۔ آپ نے فرمایا : ابو سفیان تم پر افسوس !کیا تمہارے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم یہ جان سکو کہ میں اللہ کا رسول ؐہوں۔ ابو سفیان نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا۔ آپ کس قدر حلیم ، کس قدر کریم اور کس قدر صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ اس بات کے متعلق تو اب بھی دل میں کچھ نہ کچھ کھٹک ہے۔ اس پر حضرت عباسؓ نے کہا: ارے!گردن مارے جانے کی نوبت آنے سے پہلے پہلے اسلام قبول کرلو!اور یہ شہادت واقرار کر لو کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیںاور محمد اللہ کے رسول ؐہیں۔ اس پر ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی۔ حضرت عباسؓ نے کہا : اے اللہ کے رسول ؐ!ابوسفیان اعزاز پسند ہے، لہذا اسے کوئی اعزاز دے دیجیے۔ آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے۔ جو ابو سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان ہے اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے امان ہے اور جو مسجد ِ حرام میں داخل ہوجائے اسے امان ہے۔