مصائب و مشکلات میں مومن کی پکار
مصائب و مشکلات بیماری و تنگی انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، تاہم اگر مصائب میں بندہ کا رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے تو یہ مصائب اس کے حق میں رحمت خداوندی کے نزول کے عنوان ہیں لیکن بندہ چونکہ کمزور وناتواں ہوتا ہے، وہ رحمت خداوندی کا ادراک نہیں کرسکتا، وہ اپنی آخرت کے بناؤ وبگاڑکے پہلو سے واقف نہیں ہوتا، وہ دوسروں کے مانند اپنے کو بھی خوشحال وفارغ البال دیکھنا چاہتا ہے اور وہ حقیقت میں بھی مصائب کو انگیز کرنے کی سکت بھی اپنے اندر نہیں پاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ سے عافیت کو طلب کرتا رہے، دعاؤں کے اہتمام کے ذریعہ بارگاہ خداوندی میں اس بات کی التجاکرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بیماری کی نعمت کو صحت کی نعمت اور بے روزگاری کی نعمت کو روزگاری کی نعمت سے بدل دے، دراصل اللہ تعالیٰ بندہ کو مبتلائے مصیبت کرکے اس کی عاجزی وبندگی کے مظاہرہ کو دیکھنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے دعا سے بڑھ کر اپنی عاجزی وبے بسی کا اظہار بندہ اپنے دوسرے اعمال کے ذریعہ کہاں کرسکتا ہے؟ بلکہ دعا کو احادیث میں حاصلِ عبادات قرار دیا گیا ہے۔
مصائب میں مبتلا شخص ان دعاؤں کا خوب اہتمام کرتا ہے:اے اللہ! میں تیری رحمت کی امید کرتا ہوں تو مجھے پل بھر بھی میرے سپرد نہ کر اور میرا سارا حال درست فرمادے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ اے زندہ اور اے قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں۔ اللہ! میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں بناتا۔ان دعاؤں کو مصائب اور پریشانیوں کے دفاع میں خوب اثر ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کو مصائب اور مشکلات کے وقت انہیں دعاؤں کی تلقین فرمائی تھی۔(حیاۃ الصحابہ)
دعاؤں کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے، اس کے الطاف وعنایات، اور عطایا ونوازشات کے دائرہ میں آجاتا ہے، اس طرح اس کے مصائب آسانیوں سے بدلنے شروع ہوجاتے ہیں۔احادیث میں مصائب کو خدا سے تقرب ونزدیکی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ مصائب وشدائد میں سب سے زیادہ کون ہوتے ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ مصائب وشدائد میں انبیاء ہوتے ہیں،پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ دوسرے افضل لوگ، آدمی کی اس کی دینداری کے لحاظ سے آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ورنہ ہلکی، آدمی پر مصائب کاسلسلہ اس وقت تک رہتا ہے کہ وہ روئے زمین پر بغیر گناہ چلتا ہے (یعنی مصائب کی وجہ سے اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں)(مشکوٰۃ شریف)
ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ جس قوم کو چاہتے ہیں اسے آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، جو شخص اس آزمائش پر اللہ سے راضی رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی رہتے ہیں اور جو ناراض رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ (ریاض الصالحین)جو شخص مصائب میں دنیا کی عدمِ پائیداری، اس کے مقابل آخرت کی زندگی کے دوام وبقا اور مصائب میں خدا سے قرب ونزدیکی کے تصور کو ذہن میں رکھے گا، اس کی مشکلیں اس کے لیے کسی حد تک ضرور کم ہوجائیں گی۔ دعا ربِ کریم کے نادیدہ خزانوں کی چابی ہے، دعا مومن کا بہت اہم خزانہ ہے ، دعا عبادت کا مغز ہے لیکن اس کی حقیقت عقلیت پسندوں کی سمجھ میں نہیں آتی، جب کہ یہ تو جبلِ ہمالیہ سے کہیں بڑھ کر ٹھوس اور با وزن ہے اور بدیہی اعتبار سے ثابت بھی ہے ، اللہ تعالی کے نادیدہ خزانوں کا عظیم وعمیق ربط دعا سے ہے ، جس کی قبولیت کے مختلف انداز ہیں ، کبھی بعینہ وہی مل جائے ، یا اس کا بدل، بلکہ نعم البدل مل جائے ، جوں کا توں قبول نہ ہو بلکہ اللہ تعالی حکیم ہے اور اس کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں اور وہ انسان کے انجام سے بخوبی واقف ہے، چنانچہ اس کے ذریعہ کوئی مصیبت دور کردے ، یا یہ کہ اسے مومن کے لیے بطور توشہ آخرت محفوظ کردیاجائے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تواس کوحیا آتی ہے کہ ان کوخالی ہاتھ واپس کردے، یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے۔ (سنن ابی داؤد)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد درحقیقت سائل کے لئے امید کی کرن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے جومانگنے والوں کوکبھی محروم نہیں کرتا اور بندہ کی مصلحت کے مطابق ضرور عطا کرتا ہے۔ قرآن وحدیث سے جہاں دعا کی اہمیت وفضیلت اور پسندیدگی معلوم ہوتی ہے، وہیں احادیث میں دعا نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بھی وعید آئی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوبندہ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ (ترمذی)