امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ

سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سانحہ شہادت اسلامی تاریخ کا نہایت المناک باب ہے۔ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زندگی میں بھی اپنے آقا فخر کونین کے مقرب اور جلیل القدر صحابی رہے اور شہادت کے بعد بھی رسالت مآب کے سایہ رحمت میں آسودہ خواب ہیں۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دن دھلا ہوا صاف کر تا پہنا، نبی کریمؐ نے دیکھا تو مسرت کا اظہار فرمایا اور آپ کے حق میں دعا فرمائی۔ تمہیں اچھا لباس اچھی زندگی اور شہدا کی موت نصیب ہو۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ رب العزت سے دعا کی تھی۔ مشکوٰۃ میں ہے: ’’ اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور اپنے محبوب کے شہر مدینہ میں دفن ہونا نصیب فرما‘‘۔ فاروق اعظمؓ کی یہ دعا اللہ نے شرف قبولیت سے نوازی کہ سیدنا عمر فاروق مسجد نبوی محراب رسول میں جام شہادت نوش فرما کر اپنے آقا سید الکونین کے پہلو حجرہ عائشہ صدیقہؓ ہی میں ابدی آرام فرما رہے ہیں۔

23ہجری 27 ذوالحجہ بدھ کے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسبِ معمول نمازِ فجر کے لیے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کروائی ابھی تکبیرِ تحریمہ ہی کی تھی کہ ایک شخص ابو لؤلو فیروز مجوسی نامی شخص مسجد کے محراب میں چھپا ہوا تھا اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شکم میں زہر آلود خنجر کے تین وار کیے جس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافی گہرے زخم آئے اور آپ نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کے سپرد کیا۔

نماز کے بعد پہلا سوال تھا کہ میرا قاتل کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی یا امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک کافر ہے۔آپ نے بلند آواز میں کہا الحمد للہ۔ گویا آپ کو معلوم ہو گیا کہ آپ کی شہادت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ حکیم بلایا گیا، اس نے دوا دی مگر وہ زخموں کے راستے باہر آ گئی۔ آپ کو یقین ہو گیا کہ میر ی شہادت کی خواہش ضرور پوری ہو گی۔

چنانچہ اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جائو میرا سلام کہنا اور درخواست پیش کرنا کہ عمرؓ خادم اسلام کی حیثیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں جگہ چاہتے ہیں، جو آپ نے اپنے لیے رکھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلے گئے اور آپ کی درخواست پیش کی۔

اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ بہت قیمتی ہے کوئی اور ہوتا تو میں انکار کر دیتی ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیسے انکار کروں جس نے مشکل کے وقت میرا ساتھ دیا تھا جب سبھی میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے اس عظیم انسان نے میرا ساتھ دیا، ان کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گھونجتے ہیں۔ جب آپ نے برملا اعلان فرمایا تھا۔ ’’سبحنک ہذا بہتان عظیم‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آئے توآپ نے فرمایا مجھے اٹھا کر بٹھائو اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جواب لیٹ کر سننا بے ادبی و گستاخی سمجھتا ہوں۔

آپ کے بیٹے نے خوشخبری سنائی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے ، سجدہ شکر ادا کیا اور حاضرین محفل کو ایک بار پھر وصیت کی کہ جب ’’جب میرا انتقال ہو جائے، میرے کان سننا بند کر دیں، میری زبان بولنا چھوڑ دے، میرے پائوں چلنا چھوڑ دیں، میرے ہاتھ میرا ساتھ چھوڑ دیں، میرا جسم کفن میں لپیٹ دیا جائے، میری میت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے کے دروازے پہ جا کر رکھ دی جائے، میرے چہرے سے کفن ہٹا دیا جائے اور ایک مرتبہ پھر اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روضہ اقدس میں تدفین کی اجازت طلب کی جائے۔

اگر وہ اس امر کی اجازت دیں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے جنت البقیع میں دفن کر دیا جائے، اس لیے کہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ عمرؓ نے زبردستی یا طاقت کے ذریعے یہ جگہ حاصل کر لی۔ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ آپ ہفتے کے دن یکم محرم الحرام24ھ کو جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ بوقتِ وفات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر تریسٹھ برس تھی۔ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اجازت سے روضہ مبارک کے اندر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button