دو سالہ بچی کی وفات نے ولی بنا دیا

مالک ابن دینار رحمۃ اللہ علیہ شروع میں پولیس کے محکمے میں کام کرتے تھے اور شرابی و کبابی قسم کے آدمی تھے۔ ایک بہت ہی خوبصورت باندی انہوں نے خریدی، اس باندی سے ان کی ایک بیٹی ہوئی جو اپنی ماں سے بھی زیادہ خوبصورت تھی۔

ان کو اس بیٹی سے بہت پیار تھا ، یہ اکثر اس بیٹی کو گود میں اُٹھائے رکھتے اور وہ بچی ان سے کھیلتی رہتی، ان سے باتیں کرتی۔ جب بچی دو سال کی ہو گئی ، وہ اسے گود میں لے کر بیٹھتے اور شراب پینے لگتے تو وہ گلاس ان کے ہاتھ سے گرا دیتی، کبھی ان کی داڑھی کے ساتھ کھیلتی مگر وہ اسے کچھ نہ کہتے ۔

اللہ کی شان کسی بیماری کی وجہ سے دو سال کی عمر میں اس بچی کی وفات ہوگئی۔ ان کے دل پر بڑا گہرا صدمہ ہوا، کئی دن تک مغموم رہے۔ ایک دن سوئے ہوئے تھے کہ انہوں نے خواب دیکھا کہ قیامت کا دن ہے، ایک زور دار دھماکہ ہوا، جب انہوں نے دیکھا تو ایک بہت بڑا اژدھا ہے جو منہ کھولے ان کی طرف بھاگا چلا آ رہا ہے۔ اب اس اژدھے کو دیکھ کر ان کی حالت بری، یہ پریشان، یہ بھاگنے لگے۔بھاگتے جارہے ہیں، اژدھا پیچھے آ رہا ہے۔ راستے میں ان کو ایک کمزور سا آدمی ملا، سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے، بوڑھا تھا، انہوں نے اس سے کہا کہ مجھے اژدھے سے بچاؤ! وہ بوڑھا کہنے لگا میں تو کمزور ہوں میںتو نہیں بچا سکتا۔

البتہ تمہیں آگے یہ پہاڑیاں نظر آ رہی ہیں تم اس طرف جاؤ ! تو شایدبچنے کاکوئی سبب بن جائے۔ انہوں نے بھاگنا شروع کر دیا،اژدھا ان کے پیچھے پیچھے … ایک پہاڑی کی طرف جو بھاگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آگے جہنم ہے، قریب تھاکہ یہ پہاڑی کی طرف جاتے تو جہنم میں گر جاتے، یہ وہاںسے پھر بھاگے، جب انہوں نے وہاں سے ٹرن لیا تو اژدھا بھی ان کے پیچھے۔ اب اژدھا پہلے کی نسبت ان کے زیادہ قریب ہو گیا تھا اور ان کو محسوس ہوا کہ شاید یہ اژدھا مجھے پکڑ لے گا اور ایک لقمہ بنا لے گا، پھر بھاگے بھاگے واپس آئے تو وہی بوڑھا نظرآیا، انہوں نے پھر درخواست کی کہ مجھے بچا لیجئے! اس نے کہا کہ میں تو کمزور ہوں ، میں تو مدد نہیں کر سکتا، البتہ تم اس دوسری پہاڑی پر جاؤ شاید تمہارے بچنے کی کوئی صورت نکل آئے۔

یہ دوسری پہاڑی کی طرف بھاگے، اب اژدھا بھی تیز بھاگنے لگا، اتنا قریب آ گیا کہ ان کو یہ ڈرہوا کہ بس اب تھوڑی ہی دیر میں اژدھا مجھے اپنے منہ میں لے لے گا، اور اژدھا ایسی آواز نکال رہا تھا اور اتنا بڑا تھا، خوف کے مارے پسینے چھوٹ رہے تھے اور بری حالت تھی۔ یہ ذرا آگے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں بہت سے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ وہاں ایک دربان تھا، اس نے ان کو دیکھتے ہی اعلان کیا کہ بچو! باہر نکلو! تم میں سے کوئی ہے جو اس کی شفاعت کرنے والا ہو۔ تو اس کی بات سنتے ہی دروازہ کھل گیا، لاکھوں بچے ان مکانوں میں سے باہر جھانکنے لگے، تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی دو سال کی بچی جو فوت ہوگئی تھی اچانک وہ سامنے آئی، اس نے چھلانگ لگائی اور ان کے قریب آ گئی، اس نے اپنے ہاتھ کا اشارہ جو کیا تو وہ اژدھا پیچھے بھاگ گیا۔ اب یہ بیٹی کو گود میں لے کر بڑے خوش ہوئے، کہنے لگے: بیٹی تو یہاں کیسے؟ تو بیٹی نے کہا:
ترجمہ:’’کیا ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد سے ڈرجائیں۔‘‘ (الحدید:۱۶)

وہ نیک بن جائیں، ان کے دل پر اس کا بڑا اثر ہوا۔ کہنے لگے: بیٹی یہ کیا معاملہ ہے؟ کہا کہ یہ وہ گھر ہے جہاں مسلمانوں کے چھوٹے بچے فوت ہوجاتے ہیں، وہ یہاں پر پالے جاتے ہیں تاکہ قیامت کے دن وہ اپنے ماں باپ کی شفاعت کر سکیں۔ آپ کو جب میں نے دیکھا تو میں آپ کی گود میں آگئی۔انہوں نے کہا یہ اژدھے والا کیا معاملہ ہے؟

بچی نے کہا: ابو! یہ اژدھا آپ کے گناہ ہیں جو اتنے زیادہ تھے کہ اس اژدھا کی صورت اختیار کر گئے اور اس بوڑھے کو جو آپ نے دیکھا، وہ آپ کے نیک اعمال ہیں، اگر آپ کے نیک اعمال زیادہ ہوتے تو وہ نوجوان بندے کی شکل میں ہوتا اورآپ کو اژدھے سے بچا لیتا۔

گناہ تھوڑے ہوتے تو اژدھا چھوٹا ہوتا۔اب وہ آپ کے نیک اعمال آپ کو بچا تو نہ سکے مگر انہوں نے رہنمائی کر دی کہ آپ میری طرف جائیں۔ چنانچہ میں نے آپ کو اژدھے سے بچا لیا، تو ابو اب آپ توبہ کر لیجئے، اللہ سے ڈر جائیے۔ اس خواب کے پورا ہوتے ہی ان کی آنکھ کھل گئی، انہوں نے سچی توبہ کر لی اور پھر اتنے بڑے ولایت کے مقام کو پانے والے بزرگ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button