اعرابی کا سوال و جواب کا انوکھا انداز
وہ نجد کا ایک بدو تھا۔ گفتگو اتنی شاندار اور دلپذیر کرتا کہ سننے والے حیرت زدہ رہ جاتے۔ اسے فصیح زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ بڑا خوبصورت، گورا چٹا رنگ، بالوں کے پٹے کانوں کی لو تک نکلے ہوئے جیسے چاند کے گرد ہالہ ہو۔
وہ اپنی قوم کا سفیر بن کر مدینہ طیبہ پہنچا۔ اونٹنی پر سوار یہ بدو سیدھا مسجد نبوی میں آیا اور بدو بے خوفی سے اپنی اونٹنی بھی مسجد کے اندر لے گھُسا۔ اونٹنی ایک کونے میں بٹھادی اور خود اس حلقے کی طرف بڑھا جہاں سرور کائنات تشریف فرما تھے۔ حلقے کے قریب پہنچا تو سلام نہ دعا ، بلکہ اس نے بدوی لہجے میں پوچھا کہ محمد (ﷺ) کہاں ہیں؟
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ٹیک لگائے تشریف فرما تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: یہ جو روشن چہرے والے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اب وہ بدو اللہ کے رسولؐ سے براہ راست مخاطب ہوا۔ کہنے لگا: آپ ہی ابن عبدالمطلب ہیں؟ ارشاد ہوا : تمہارے سوال کا جواب دیا جا چکا ہے۔
یہ شخص جس کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا، نجد کا رہنے والا تھا۔ داعیان توحید جب اس علاقے کے قبیلہ بنو سعد میں پہنچے تو ان لوگوں نے جو طبعاً دور رس اور معاملہ فہم تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر سے خاصی معلومات حاصل کیں۔ بہت سارے سوال جواب ہوئے۔
دین کیا ہے؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بارے میں، ارکان اسلام کے بارے میں۔ انہیں بہت کچھ بتایا گیا تو انہوں نے سوچا کیوں نہ اپنا ایک نمائندہ مدینہ بھیجا جائے جو بالمشافہ گفتگو کرے اور ان باتوں کی تصدیق کرآئے۔ چنانچہ انہوں نے باہم مشورے کے بعد ایک نہایت سمجھدار اور ذہین و فطین شخص ضمام بن ثعلبہ کو مدینہ بھیجا۔
ہر چند یہ بدو تھا مگر اتنے اچھے اسلوب سے گفتگو کرتا تھا کہ اس کے انداز گفتگو پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت نے فرمایا: میں نے ضمام سے بہتر اور مؤثر گفتگو کرنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ ضمام نے کہا: اللہ کے رسولؐ! میں قبیلہ بنی سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں اور میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ میری قوم نے چند باتوں کی تحقیق کے لیے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ میں بدو ہوں۔ میرے لب و لہجے اور اندازِ گفتگو کی شدت کو ہر گز محسوس نہ فرمائیے گا۔ ارشاد ہوا: جو انداز گفتگو چاہو، اختیار کر لو۔ میرے دل میں ہر گز کوئی میل نہیں آئے گا۔ تم … بے تکلف ہو کر اطمینان سے… بات کرو۔
اب اس نے بولنا شروع کیا: آپ کو آپ کے رب اور آپ سے پہلوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا واقعی اللہ رب العزت نے آپ کو تمام ابنائے آدم کی طرف نبیؐ اور رسولؐ بنا کر بھیجا ہے؟ ارشاد ہوا: ہاں ! اللہ گواہ ہے، اسی نے مجھے منصب رسالت عطا فرمایا ہے۔
اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا واقعی آپ کو اللہ نے حکم دیا ہے کہ دن اور رات میں پانچ مرتبہ نمازادا کریں؟ ارشاد ہوا: اللہ کی قسم! حقیقت یہی ہے۔
اس نے اگلا سوال کیا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا واقعی اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ سال بھر میں ایک ماہ (رمضان) کے روزے رکھیں؟ فرمایا: اللہ کی قسم! ایسا ہی ہے۔ ضمام نے مزید کہا: میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا واقعی اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ امراء سے صدقہ، یعنی زکوٰۃ لے کر فقراء میں تقسیم کی جائے؟ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ اب ضمام نے بے ساختہ کہا: جو احکام آپ لے کر آئے ہیں، میں ان پر ایمان لاتا ہوں۔ (بخاری)