ٹیکنالوجی کے دور میں اسلام اجنبی ہو جائے گا!
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ کی کتاب کو عار ٹھہرایا جائے گا اور اسلام اجنبی ہو جائے گا
موجودہ دور کو ترقی کی معراج قرار دیا جا رہا ہے، کچھ عرصہ پہلے جن چیزوں کا تصور بھی محال تھا آج وہ اشیاء آپ کے گھر میں موجود ہیں، بہت سے لوگوں نے تو ٹیکنالوجی کو ہی اپنا قبلہ و کعبہ بنا رکھا ہے وہ اس سے آگے سوچنے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی اس ضمن میں وہ کسی کی سننے کیلئے آمادہ ہیں، ایسے لوگ برملا کہتے ہیں کہ مسلمان مغرب کی نسبت ترقی کی راہ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ وہ ظاہری حالات کو دیکھ کر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں اس لئے سننے والے کے پاس اس کی رائے سے اتفاق کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ انسان جیسے جیسے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہ آخرت کی فکر سے غافل ہوتا جا رہا ہے، ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگوں کا خدا کی ذات پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے اسے یوں سمجھئے کہ پہلے جب کوئی بیمار ہوتا تو وہ خود اور اس کے گھر والے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ اللہ تعالی بیمار کو اپنے فضل سے صحت یاب کر دے، آج صورتحال یکسر مختلف ہے، بیماری کے بعد فوراً ذہن اچھے ڈاکٹر اور اچھے ہسپتال کی طرف جاتا ہے، کہ پیسے خرچ کر کے وہ صحت یاب ہو جائیں گے۔ اسی طرح جو لوگ تیمار داری کیلئے آتے ہیں وہ بھی سب سے پہلے یہی سوال کرتے ہیں کہ کس ڈاکٹر کو چیک کروا کر رہے ہیں، اگر انہیں محسوس ہو کہ ڈاکٹر اچھا نہیں ہے تو مریض کو اپنے جاننے والے ڈاکٹر یا مہنگے ہسپتال سے علاج کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علاج اچھے معالج سے ہی کرانا چاہئے مگر ہم اس قدر مادہ پرستی کا شکار ہو چکے ہیں کہ ڈاکٹروں سے آگے ہمارا ذہن جاتا ہی نہیں ہے، حالانکہ جب مرض لا علاج ہو جاتا ہے اور ڈاکٹر جواب دے دیتے ہیں تو ہمیں خدا کے در کے سوا کوئی در دکھائی نہیں دیتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تعلیم دی کہ اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو، علماء نے لکھا ہے کہ صدقہ سے علاج کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کسی غریب کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں تو وہ آپ کو دعا دیتا ہے جو خدا کی رضا کا باعث بنتی ہے اور چونکہ شفاء کے خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اس لئے مریض کو شفاء نصیب ہوتی ہے۔ اس فرمان کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیماری روحانی معاملہ ہے، جو خدا کے ساتھ قوی رابطہ اور دعا سے ختم ہو سکتا ہے۔ علاج کی اجازت ہے اور ہمیں علاج کرانے کی تلقین بھی کی گئی ہے لیکن صرف اسباب کے درجے میں، ہمارا یقین خدا پر ہونا چاہئے کہ شفا ملے گی تو صرف خدا کے فضل سے ملے گی۔ ٹیکنالوجی کے آنے سے ہمارے اس یقین میں کافی کمی آئی ہے اور بیماری کے بعد ہمارا ذہن سب سے پہلے ڈاکٹر کی طرف جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی سے مستفید ضرور ہوں مگر کامل یقین خدا پر رکھیں۔ بہت سے لوگ مغرب کی تعریف و تقلید میں اسلام کو نشانہ بناتے ہیں، ہمیں ایسی سوچ سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ مسلمانوں سے ایسی دنیا کی ترقی مقصود نہیں ہے، جس راہ پر آج ہم چل نکلے ہیں، دھیان رہے کہ رسول خدا نے قیامت کی بہت سی نشانیاں آج سے چودہ سو سال قبل بیان فرما دی تھیں ان احادیث کو سامنے رکھ کر اپنا جائزہ لیں کہ کہیں ہم ان امور کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہیں جن سے ہمیں منع کیا گیا ہے؟ رسول خدا نے فرمایا کہ قرب قیامت اسلام کو اجنبی سمجھا جائے گا آج اس دور سے ہم گزر رہے ہیں افسوس تو اس با ت کا ہے کہ اسلام کے ماننے والے ہی اسلام کی تعلیمات کو اجنبی بنا رہے ہیں۔
جب اسلام اجنبی ہو جائے گا
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ کی کتاب (پر عمل کرنے) کو عار ٹھہرایا جائے گا اور اسلام اجنبی ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور زمانہ بوڑھا ہو جائے گا، انسان کی عمر کم ہو جائے گی، ماہ و سال اور غلہ و ثمرات میں (بے برکتی اور) کمی رونما ہو گی، ناقابل اعتماد لوگوں کو امین اور امانت دار لوگوں کو ناقابل اعتماد سمجھا جائے گا، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا قرار دیا جائے گا، ہرج عام ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: قتل، قتل۔ اور یہاں تک کہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں گی اور ان پر فخر کیا جائے گا، یہاں تک کہ صاحب اولاد عورتیں غمزدہ ہوں گی اور بے اولاد خوش ہوں گی، ظلم، حسد اور لالچ کا دور دورہ ہو گا، علم کے سوتے خشک ہوتے جائیں گے اور جہالت کا سیلاب امنڈ آئے گا، اولاد غم و غصہ کا موجب ہو گی اور موسم سرما میں گرمی ہو گی۔ یہاں تک کہ بدکاری اعلانیہ ہونے لگے گی۔ ان حالات میں زمین کی طنابیں کھینچ دی جائیں گی۔( ابن عساکر )
مہنگی گاڑیوں کی مخملیں گدیاں
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس امت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو مہنگی گاڑیوں کی مخملیں گدیوں پر بیٹھ کر مسجدوں کے دروازوں تک پہنچا کریں گے، ان کی عورتیں لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی۔ (امام احمد، حاکم)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں ایسے طبقات اور گروہ ہوں گے جو ظاہری طور پر (ایک دوسرے کے لیے) خیر سگالی کا مظاہرہ کریں گے اور اندر سے ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ایسا کیونکر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ایک دوسرے سے (شدید نفرت رکھنے کے باوجود صرف) خوف اور لالچ کی وجہ سے (بظاہر دوستی وخیر خواہی کا مظاہرہ کریں گے)۔ (امام احمد، طبرانی)
دنیوی علم کا دور دورہ ہو گا
حضرت عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ مال عام اور کثیر ہو جائے گا، تجارت پھیلے گی اور دنیوی علم کا دور دورہ ہو گا۔ (امام نسائی، حاکم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میری امت چھ چیزوں کو حلال سمجھنے لگے گی تو ان پر تباہی نازل ہو گی۔ جب ان میں باہمی لعنت ملامت عام ہو جائے، لوگ کثرت سے شرابیں پینے لگیں، مرد ریشمی لباس پہننے لگیں، لوگ گانے بجانے اور رقص کرنے والی عورتیں رکھنے لگیں، مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی لذت حاصل کرنے لگیں (یعنی ہم جنس پرستی عام ہو جائے اس وقت تباہی و بربادی ان کا مقدر ٹھہرے گی)۔ (طبرانی، بیہقی)
بیگانوں سے تعلق جوڑا جائے گا اور خونی رشتوں سے توڑا جائے گا
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی علم ایسا بھی ہے جس سے قربِ قیامت کے بارے میں جانا جا سکے؟ آپ نے فرمایا: اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے کچھ آثار و علامات ہیں وہ یہ کہ اولاد (نافرمانی کے سبب والدین کے لیے) غم و غصہ کا باعث ہو گی، بارش کے باوجود گرمی ہو گی اور بدکاروں کا طوفان برپا ہوگا۔
’اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ خیانت کرنے والے کو امین اور امین کو خیانت کرنے والا بتلایا جائے گا۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بیگانوں سے تعلق جوڑا جائے گا اور خونی رشتوں سے توڑا جائے گا۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر قبیلے کی قیادت اس کے منافقوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور ہر بازار کی قیادت اس کے بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہو گی۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مساجد سجائی جائیں گی اور دل ویران ہوں گے۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مومن (نیک اور دیانت دار آدمی) اپنے قبیلہ میں بھیڑ بکری سے زیادہ حقیر سمجھا جائے گا۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی تعلق استوار کریں گی۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مسجدیں بہت زیادہ ہوں گی اور ان کے منبر عالی شان ہوں گے۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ دنیا کے ویرانوں کو آباد اور آبادیوں کو ویران کیا جائے گا۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ گانے بجانے کا سامان عام ہوگا اور شراب نوشی کا دور دورہ ہوگا۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ ہے کہ مختلف اقسام کی شرابیں پی جائیں گی۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ (معاشرے میں) پولیس والوں، چغلی کرنے والوں اور طعنہ بازوں کی بہتات ہوگی۔
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ناجائز بچوں کی ولادت کثرت سے ہوگی۔ (طبرانی)
جب دین محفوظ نہیں رہے گا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دیندار آدمی کا دین سلامت نہیں رہے گا سوائے اس شخص کے جو اپنا دین بچانے کے لیے کسی پہاڑی کی چوٹی سے دوسری چوٹی پر یا ایک سرنگ سے دوسری سرنگ میں اپنا دین اپنے ساتھ لے کر نہ بھاگتا پھرے۔ جب ایسا زمانہ آ جائے تو اس وقت معیشت صرف انہی ذرائع سے حاصل ہو گی جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔ جب ایسا زمانہ آ جائے تو اس وقت آدمی کی ہلاکت کی وجہ اس کی بیوی یا اس کی اولاد ہو گی اور اگر کسی کی بیوی اور اولاد نہ ہوئی تو اس کے والدین اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ اگر اس کے والدین نہ ہوئے تو اس کی ہلاکت اس کے قریبی رشتہ داروں یا ہمسایوں کے ہاتھوں ہو گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں کر ہو گا؟ آپ نے فرمایا: وہ اسے تنگی معاش (پیسے کی کمی) کا طعنہ دیں گے جس کی وجہ سے وہ (دولت سمیٹنے کے لیے) اپنے آپ کو ایسے امور میں ملوث کر لے گا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔(بیہقی، منذری)
پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج ہر شخص دولت جمع کرنے میں ایسا مصروف عمل ہے کہ نہ اسے نمازوں کی ادائیگی کی فکر ہے اور نہ ہی اسے دیگر فرائض کی ادائیگی کی فکر ہے، مذکورہ بالااحادیث کی روشنی میں ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا ہم اپنا دین بچانے میں کامیاب ہیں یا ہماری سوچ مادہ پرستی اور ٹیکنالوجی کا شکار ہو چکی ہے۔