جادو، حقیقت یا فسانہ
دور حاضر میں خود کو ترقی یافتہ کہلوانے والے کچھ لوگ عقل و شعور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف یہ کہہ کر جادو کا انکار کر دیتے ہیں کہ یہ سب محض خیالی باتیں یا فرضی افسانہ ہیں۔ آج زمانہ کہاں سے کہاں ترقی کر گیا ہے لیکن نہ اس کی کوئی مضبوط دلیل پیش کی جا سکی اور نہ اب تک اس کی کوئی قابل قبول منطقی تشریح ہی پیش کی جا سکی ہے ۔ لہٰذا اس قسم کی فضول اور جہالت پر مبنی باتوں کی طرف متوجہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔
لیکن وہ لوگ جو سائنس کی بتدریج ترقی کی تاریخ سے آگاہ ہیں ، ان پر یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہے کہ سائنس کی رو سے کسی چیز کے عدم اثبات یا عدم توجیہ اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ جو چیز آج ایک ناقابلِ فہم معمہ بنی ہوئی ہے، کل اس کا کوئی معقول حل مل جائے۔
ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ جو جادو اور اثرات ، نیز جنوں اور شیطانوں کی ایذا رسانی پر یقین رکھتا ہے ، وہ بھی مختلف قسم کی غیر شرعی باتوں، توہمات اور خرافات میں مبتلا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس مسئلہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کر دیا جائے ، تاکہ معلوم ہو جائے کہ جادو ایک حقیقت ہے نہ کہ خیالی باتیں یا فرضی افسانہ ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’ ’ اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا ، بلکہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور بابل میںہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اُتارا گیا تھا ، وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہے ، تو کفر نہ کر۔ پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچائے اور وہ بالیقین جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ، اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں کاش کہ یہ جانتے ہوتے۔‘‘ (البقرۃ: 102)
سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان موسیٰ علیہ السلام کی زبانی یوں ذکر ہوا ہے:
ترجمہ: ’’موسیٰ نے کہا: کیا تم حق کے بارے میں جب وہ تمہارے پاس آیا ، یہ کہتے ہو کہ یہ جادو ہے۔ حالانکہ جادوگر کامیاب نہیںہوا کرتے۔‘‘ (یونس: 77)
اسی سورت کے ایک دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: ’’پھر جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم لائے ہو جادو ہے۔ یقینی بات ہے کہ اللہ ابھی اس کو درہم برہم کیے دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا، اور اللہ حق کو اپنے فرمان سے ثابت کر دیتا ہے ، گو مجرم لوگ بُرا ہی مانیں۔‘‘ (یونس: 81، 82)
اللہ تعالیٰ سورۂ طہٰ میں فرماتا ہے: ترجمہ: ’’تو موسیٰ نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔ ہم نے کہا: کچھ خوف نہ کر، یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا۔ اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے تاکہ ان کی تمام کاری گری کو وہ نگل جائے، انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا۔‘‘ (طہٰ : 67، 69)
سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ: ’’ اور ہم نے موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنا عصا ڈال دیجئے! چنانچہ عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے اس کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کر دیا ۔ پس حق ظاہر ہو گیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا وہ سب جاتا رہا ۔ لہٰذا وہ لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہو کر پھر وہ جو جادوگر سجدے میں گر گئے۔ کہنے لگے کہ ہم ایمان لائے رب العالمین پر ۔ جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ ‘‘ (اعراف: 122-117)
سورۃ الفلق میں جادو کا اثبات واضح الفاظ میں موجود ہے، فرمان الٰہی ہے:
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربن نہایت رحم والا ہے
’’آپ کہہ دیجئے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے اور گرہ لگا کر ان پر پھونکنے والیوں کے شر سے بھی ۔ اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔ ‘‘