عبادت پرکبھی بھی ناز نہ کریں
علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بہت بڑا عابد و زاہد شخص تھا۔ رات دن اللہ کی عبادت کرتا تھا ۔ چونکہ صاحب عیال تھا اس لیے کمانے کا بھی کچھ دھندا تھا۔ دکان کی صورت میں تھوڑی سی تجارت تھی مگر اس کا دل اس سے الجھا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ سب کچھ نہ ہو۔
بس ہر وقت عبادت ہی میں لگا رہوں ۔ مگر سوچتا کہ بیوی بچوں کا کیا کرے۔ بہرحال ایک دن اسے جذبہ آیا اور ساری تجارت و دولت کو بیوی بچوں کے نام کیا اور خود فارغ ہو گیا۔ سب سے رخصت ہو کر سمندر کے بیچ میں پہنچ گیا ۔ وہاں ایک ٹیلہ تھا ‘ اس پر اس نے ایک چھوٹی سی جھونپڑی باندھی کہ اب ہر وقت اس میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت میں مصروف رہوں گا۔ ان مذاہب میں رہبانیت جائز تھی یعنی ساری دنیا کو آدمی چھوڑ کر ایک کونے میں جا بیٹھے۔ اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی۔
یہ شخص اپنے مذہب کے مطابق جا کر بیٹھ گیا ۔ گویا اس نے بڑی بھاری عبادت کی۔ چونکہ مخلص اور صاحب دل تھا اس لیے اس سمندر کے بیچ والے ٹیلے پر جہاں نہ کوئی جہاز آ سکے اور نہ کشتی وغیرہ جا سکے ۔ حق تعالیٰ شانہ نے اپنے فضل سے وہاں ایک میٹھا چشمہ جاری کر دیا اور اسی پہاڑی پر ایک انار کا درخت اُگا دیا۔ اس عابد کا کام یہ تھا کہ روزانہ ایک انار کھا لیا اور کٹورا پانی پی لیا اور چوبیس گھنٹے عبادت میں مصروف رات اور دن اسی طرح سے اس کی عمر پانچ سو برس ہوئی اور یہ پانچ سو برس اسی شان سے گزرے اب اس کے انتقال کا وقت آیا اس نے حق تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے اللہ یہ تیرا فضل تھا کہ تو نے مجھے عبادت میں لگایا ‘ اب میری خواہش ہے کہ مجھے سجدے کی حالت میں موت دیجئے تاکہ خاتمہ میرا عبادت کے اوپر ہو اور دوسری درخواست یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں میرے بدن کو قیامت تک محفوظ رکھیے۔ نہ زمین کھائے اور نہ کیڑے مکوڑے کھائیں تاکہ قیامت تک میں تیرا عبادت گزار بندہ ہی سمجھا جاؤں۔ حق تعالیٰ نے اس کی دونوں دعائیں قبول فرمائیں۔ عین نماز کے اندر سجدے کی حالت میں انتقال ہوا اور اس کا بدن محفوظ رہا۔ لیکن حق تعالیٰ نے اس ٹیلے کے اوپر بڑے بڑے گنجان درخت ایسے اُگا دیے ہیں کہ وہاں تک جاتے ہوئے ہیبت کھاتے ہیں اس لیے وہاں نہ کوئی جانور جاتا ہے اور نہ انسان جاتا ہے۔ اسی حالت حق تعالیٰ کے سامنے اس کی پیشی ہو گی۔ حق تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ اے بندے! میں نے اپنے فضل و کرم سے تجھے بخشا اور تجھے بڑے مقامات دیے۔ جنت میں جا کر آرام کرو ۔ بندہ عرض کرے گا کہ اے اللہ میں نے تو ساری عمر تیری عبادت میں گزاری ‘ پھر بھی تیرے فضل سے جنت میں جاؤں گا۔ میں تو اپنی عبادت کے بدلے میں جنت میں جا رہا ہوں۔
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ نہیں ہم اپنے فضل سے جنت میں بھیج رہے ہیں۔ وہ پھر کہے گا کہ نہیں اے اللہ پھر میری عبادت کس کام آئے گی؟ میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جا رہا ہوں۔ تو حکم ہوگا کہ اسے جہنم کے قریب لے جا کر کھڑا کر دو ‘ جہنم میں داخل نہ کرنا۔ اسے اتنی دور رکھو کہ جہنم کا فاصلہ وہاں سے پانچ سو برس کا ہو۔ ملائکہ اسے لے جائیں گے اور لے جا کر کھڑ اکر دیں گے۔ جہنم کی طرف سے ایک گرم ہوا اور آگ کی لپٹ آئے گی ۔ اس کی وجہ سے وہ سر سے پاؤں تک خشک ہو جائے گا۔ اس کی زبان پر کانٹے کھڑے ہو جائیں گے اور وہ پیاس پیاس چلانا شروع کرے گا۔ اس وقت غیبی ہاتھ ظاہر ہوگا جس میں ٹھنڈے پانی کا ایک کٹورہ ہوگا ‘ یہ عابد دوڑے گا کہ اے خدا کے بندے یہ پانی مجھے دیدے میں بالکل مرنے کے حال میں ہوں۔ آواز آئے گی کہ کٹورہ تو ملے گامگر اس کی قیمت ہے مفت نہیں ملے گا۔ وہ پوچھے گا اس کی قیمت کیا ہے۔ کہا جائے گا جس نے خالص پانچ سو برس عبادت کی ہو‘ وہ اگر کوئی پیش کرے تو یہ کٹورہ پانی کا اسے مل سکتا ہے۔ عابد کہے گا کہ میرے پاس ہے پانچ سو برس کی عبادت۔ وہ اس عبادت کو پیش کر دے گا اور وہ کٹورہ لے کر پانی پی لے گا تو کچھ جان میں جان آئے گی۔ حق تعالیٰ کہیں گے کہ اسے واپس لاؤ پھر اس کی پیشی ہو گی۔ حق تعالیٰ دریافت فرمائیں گے کہ اے بندہ تیری پانچ سو برس کی عبادت کے صلے سے تو ہم آزاد ہو گئے۔ پانچ سو برس کی عبادت کے بدلے میں ایک کٹورہ پانی لے لیا اور یہ قیمت تو نے خود تجویز کی لہٰذا اب تو برابر ہو گیا۔ اب ہمارے ذمے کچھ نہیں ‘ تجھے تیری عبادت کا صلہ مل گیا۔ اب وہ جو تم نے لاکھوں دانے انارکے کھائے ہیں‘ ایک ایک دانے کا حساب دے اس کے بدلے میں کتنی نمازیں پڑھیں ہیں۔ کتنے سجدے کیے ہیں اور وہ جو ہزاروں کٹورے پانی کے پئے ہیں ایک ایک قطرے کا حساس دیدے۔ اس پانی کے بدلے کتنی عبادتیں کی ہیں اور وہ جو ٹھنڈا سانس لیتاتھا جس سے زندگی قائم تھی۔ ایک ایک سانس کا حساب دے دے کہ اس کے بدلے میں کیا عبادتیں لے کر آیا ہے۔ اور وہ جو تیری آنکھوں میں ہم نے روشنی دی تھی اور تارنگاہ سے ایک ایک چیز کو دیکھتا تھا ‘ ایک ایک تارنگاہ کا حساب دیدے کہ اس کے بدلے میں کتنی عبادتیں لے کر آیا ہے۔ پانچ سو برس کی عبادت کا بدلہ ایک کٹورا پانی ہو گیا اب جو دوسری نعمتیں استعمال کی ہیں ان کا حساب دیدے۔
یہ عابد تھر اجائے گا اور کہے گا کہ بے شک اے اللہ! نجات آپ کے ہی فضل سے ہوگی‘ کسی کا عمل اس کو نجات نہیں دلائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لاکھوں برس عبادت کرے گا تو وہ بھی ذریعہ نجات نہیں بن سکے گا جب تک کہ فضل خداوندی نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ جو عبادت کرے گا اس کی طاقت کون دے گا۔ ظاہر بات ہے کہ وہ طاقت بھی وہی دے گا اور طاقت آنے کے بعد جو ارادہ دل میں ہوگا وہ ارادہ کون پیدا کرے گا‘ وہ بھی وہی پیدا کرے گا۔ پھر توفیق کون دے گا؟ وہ بھی وہی دے گا پھر آپ نے کیا کیا؟ سب کچھ تو اس نے کرایا۔ ارادہ انہوں نے دیا ‘ طاقت انہوں نے دی۔
توفیق انہوں نے دی‘ آپ نے صرف چار سجدے کر لیے تو کیا کمال کیا اور ان سجدوں میں بھی آپ نے جو حرکت کی بدنی طاقت سے وہ طاقت بھی آپ کی ذاتی نہیں تھی وہ بھی انہی کی دی ہوئی تھی۔ تو اول سے لے کر آخر تک کام تو سارا ان کا ہے اور کہنے لگے آپ کہ میں نے کیا اور پھر آدمی اس پر فخر کرے فضول ہے بلکہ موقع شکر ہے کہ تمام نعمتیں اس نے اپنے فضل سے دی ہیں۔