سلطان القانونی کی چیونٹیوں سے متعلق فکر مندی
ایک بار ترکی کے سلطان سلیمان القانونی کو بتایا گیا کہ درختوں کی جڑوں میں چیونٹیاں بہت زیادہ ہو گئی ہیں تو سلطان نے ماہرین کو بلایا اور پوچھا کہ اس کا کیا حل ہے؟
ماہرین نے بتایا کہ فلاں تیل اگر درختوں کی جڑوں پر چھڑک دیا جائے تو چیونٹیاں ختم ہو جائیں گی، مگر سلطان کی عادت تھی کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرتے تھے۔ اس لیے خود چل کر ریاستی مفتی جن کو شیخ الاسلام کہا جاتا تھا کے گھر گئے‘ مگر شیخ گھر پر نہیں تھے اس لیے ایک پیغام شعر میں لکھ کر ان کے لیے رکھا جو یہ تھا:
’’اذا دب نمل علی الشجر فھل فی قتل ضرر؟‘‘
’’اگر درختوں میں چیونٹیاں ہو جائیں تو ان کو قتل کرنے میں کوئی ضرر ہے؟‘‘
’’اذا نصب میزان العدل اخذ النمل حقہ بلا وجل ‘‘
’’اگر انصاف کا ترازو قائم ہو تو چیونٹیاں صرف اپنا حق لیتی ہیں۔‘‘ ، شیخ نے اشارہ دیا کہ زیادہ اہم کام کیا ہے!
سلطان آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کو فتح کرنے کی نیت سے جہادی سفر پر نکلے مگر راستے میں انتقال ہو گیا تو آپ کے جسد خاکی کو واپس استنبول لایا گیا‘ آپ کی تجہیز و تکفین کے دوران آپ کا وصیت نامہ ملا جس میں لکھا تھا کہ میرا صندوق بھی میرے ساتھ دفن کرو‘
علماء حیران ہو گئے اور یہ سوچنے لگے کہ یہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہو گا اور اتنی قیمتی چیزوں کو مٹی میں دفنایا نہیں جا سکتا اس لیے صندوق کو کھولنے کا فیصلہ ہوا‘ صندوق کھول دیا گیا تو یہ دیکھ کر لوگ حیران ہو گئے کہ اس میں وہ تمام فتوے تھے جو علماء سے لینے کے بعد سلطان نے اقدامات کیے تھے اور ساتھ دفنانے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کو ثبوت پیش کروں کہ میں نے کوئی بھی حکومتی فیصلہ اسلام کے خلاف نہیں کیا بلکہ علماء سے باقاعدہ فتویٰ لے کر کیا‘ یہ دیکھ کر شیخ الاسلام ابوسعود جو کہ ریاستی مفتی تھے رونے لگے اور کہا:
’’سلطان تم نے تو اپنے آپ کو بچا لیا ہمیں کون بچائے گا۔‘‘ (بحوالہ تاریخ ترکیہ)