اسلام کا خاندانی نظام
خاندان‘ جو انسانی تہذیب کی بنیادی اکائی ہے ‘ مادیت کے اس دور میں بکھر رہا ہے‘ تاہم اسلام کا خاندانی نظام شوہر‘ بیوی ‘ بچوں اور رشتہ داروں کے حقوق کے مابین بہت عمدہ توازن پیدا کرتا ہے۔ یہ اخلاص و محبت ‘ رحم و کرم اور فراخدلی کے جذبات کو ایک خوبصورت منظم خاندانی نظام میں سمو دیتا ہے۔ اس طرح ایک مستحکم خاندانی وحدت سے حاصل ہونے والا امن و سکون بڑا قابل قدر ہے اور اسے خاندان کے ارکان کی ذہنی نشونما کے لیے لازم خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وسیع تر خاندان کی موجودگی اور بچوں کی نعمت میسر آنے سے ایک ہم آہنگ سماجی نظام جنم لیتا ہے۔
مسلمان بڑوں سے کیسا برتائو کرتے ہیں؟
مادیت کے اسیر مغربی ممالک میں اولڈ پیپلز ہوم یا ’’بوڑھوں کے گھر‘‘ عام ہیں، مگر عالم اسلام میں یہ شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں کیوں کہ مسلم معاشرے میں اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کی زندگی کے اس مشکل ترین وقت میں ان کی خدمت اور دیکھ بھال کو اپنی سعادت اور باعث افتخار سمجھتی ہے اور اس سے خود ان کی روحانی نشونما بھی ہوتی ہے۔ اسلام میں صرف اتنا کافی نہیں کہ ہم والدین کے لیے صرف دعا کرتے رہیں بلکہ ہمیں ان سے بے پناہ محبت کا برتائو کرنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم ناتواں بچے تھے ‘ تو انہوں نے اپنی ذات پر ترجیح دے کر ہماری پرورش کی ۔ اسلام میں ماں باپ کا خاص طور پر احترام کیا جاتا ہے‘ چنانچہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ جب مسلمان ماں باپ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو اولاد کو چاہیے کہ ان سے رحم دلی اور محبت و شفقت سے پیش آئے اور ان سے مخلصانہ برتائو کرے۔
اسلام میں والدین کی اطاعت اور خدمت اللہ کی عبادت کے بعد دوسری بڑی ذمہ داری ہے اور یہ ان کا حق ہے کہ وہ اولاد سے خدمت کی توقع کریں۔ ماں باپ بوڑھے ہو جائیں اور اولاد کی مدد اور دیکھ بھال کے محتاج ہوں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ اس عمر میں اولاد ان سے اچھا سلوک نہ کرے تو یہ اسلام کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اور (اے نبی!) آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم لوگ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے ایک یادونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ’’اُف‘‘ تک نہ کہو اور انہیں مت جھڑک اور ان سے نرم لہجے میں بات کر ۔ اور ان کے سامنے عاجزی کے ساتھ اپنے کندھے جھکائے رکھ اور (ان کے لیے) دعا کر: میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا تھا۔ ‘‘ (بنی اسرائیل 24-23:17)