وصال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کہانی سیدنا بلال کی زبانی

وصال رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مختلف صحابہ و اہل بیت نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا گیا ہے مگر جو انداز سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنایا ہے یہ سیدھا دل پر اثر کرتا ہے اور انسان اپنے آنسوؤں کو روک نہیں سکتا۔ جب دین منتہائے کمال کو پہنچ گیا تو حجۃ الوداع کے موقعہ پر خطبہ الوداع کے بعد تکمیل دین کی بشارت دیتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ترجمہ: آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں پوری کر دیں اور تمہارے لئے دین کو اسلام پسند کیا۔

یہ آیت نہ صرف تکمیل دین کی کھلی بشارت تھی بلکہ اس امر کی طرف بھی ارشاد تھا کہ نبوت کا فریضہ ادا ہو چکا ۔ امانت الٰہی پہنچا دی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ دیر اس دنیا میں نہیں رہیں گے ۔خطبۃ الوداع میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ہو سکتا ہے اس کے بعد اس موقع پر میں آپ لوگوں سے نہ مل سکوں ۔ ان اشارات سے ظاہر ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال قریب ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم آب وگل چھوڑنے اور رفیق اعلیٰ سے ملنے کے لئے تیاریاں شروع کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا زیادہ وقت ذکر وعبادت میں گزارنے لگے ۔حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی وللا خرۃ خیر لک من الاولیٰ(والضحیٰ) (درحقیقت اب آخرت تمہارے لئے بہتر ہے) یہ آیت کریمہ اس بات کی مظہر تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کا وقت قریب آ پہنچا ۔چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفر 11ھ (اپریل ۶۲۴ء)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احد تشریف لے گئے اور احد کے گنج شہدا پر نماز ادا کی ۔ ان کے لئے دعائے خیر کی اور وہاں سے واپس آ کر ایک مختصر سا خطبہ دیا۔

لوگو! میں تم سے آگے جانے والا ہوں اور تمہاری شہادت دینے والا ہوں واللہ میں حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے سلطنتوں کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں۔ یعنی دعوت حق کے نتیجہ میں مختلف ممالک فتح ہونے والے ہیں مجھے یہ ڈر نہیں رہا کہ تم میرے بعد مشرک ہو جائو گے۔ البتہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ دنیاوی مفاد کی کشمکش میں نہ پڑ جائو آپس میں خون ریزی نہ کرنے لگ جائو اور اس طرح ہلاک ہو جائو جس طرح تم سے پہلی قومیں ہلاک ہو ئیں ۔ (بخاری شریف کتاب المغازی و مسلم کتاب الفضائل)

جنت البقیع سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک میں خفیف سا درد شروع ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجر ے میں قیام فرما ہوئے ۲۹صفر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جنازے میں شرکت فرمائی، واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شدید بخار ہوگیا اور اس مرض کا آغاز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا  کے گھر میں ہوا۔ اس حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باری باری ازواج مطہرات سے فرمایا کہ مجھ سے نہیں ہو سکتا کہ مرض کی حالت میں تمہارے گھروں کا دورہ کروں اگر تم چاہو تو مجھے اجازت دے دوکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر ہی رہوں اور وہاں تم میری تیمارداری کیا کرو ۔تمام ازواج مطہرات راضی ہوگئیں ۔

سلیم گیلانی مترجم حضرت بلال مصنفہ (H.K.L Crage)نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا وہ باہر تشریف لائے مگر ان کی حرکات وسکنات میں روز مرہ جیسی چستی نہیں تھی ۔ سردرد کی شکایت کر رہے تھے ۔ مجھے کہا میں ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھوں اور دیکھوں کہیں انہیں بخار تو نہیں۔ میں نے عرض کیا پیشانی گرم ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں لیکن انہوں نے میرے ساتھ مسجد جانے پر اصرار کیا چلنے لگے تو نقاہت محسوس کر رہے تھے۔ میرا بازو تھام لیا میں انہیں اپنے ساتھ لگا کر چلنے لگا چلتے چلتے وہ اچانک رک گئے اور کہنے لگے ۔

بلال رضی اللہ عنہ تمہیں یاد ہے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی اس دن بھی ہم ایسے ہی چل رہے تھے لیکن اس دن میں نے تمہیں سہارا دیا ہوا تھا۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے۔ میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا : بائیس سال پہلے کی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلال رضی اللہ عنہ کل کی بات ہے، یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ سارا دان بخار تیز ہوتا گیا، دوسرے دن صبح اور بھی زیادہ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی بستر سے اٹھے اور اپنی آواز کی نقاہت اور ہاتھوں کی لرزش کے باوجود امامت فرمائی۔ تیسرے اور چوتھے روز بھی صورتحال ایسی ہی رہی پانچویں دن جب میں نے صبح دروازے پر دستک دی تو دروازہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کھولا چہرے پر بہت پریشانی تھی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے ایک بالٹی دی اور ٹھنڈا پانی لانے کے لئے کہا۔ میں بالٹی لیتے ہی دوڑ پڑا۔ ایک کنواں دوسرا کنواں تیسرا چوتھا چھوڑتا ہوا میں اس کنوئیں پر پہنچ گیا جس کا پانی مدینے میں سب سے ٹھنڈا تھا۔ بالٹی رسی سے باندھ کر جلدی سے کنوئیں میں ڈالی تو کنوئیں کی تہہ میں ایک چھپاکا ہوا مجھے آواز آج بھی یاد ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس پانی کی ٹھنڈک فوراً ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کی حدت ختم کر دے گی ۔پانی لے کر جلدی سے واپس آیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کیا میرے پاس اتنا ہی وقت تھا کیوں کہ دن چڑھنے سے پہلے مجھے اپنے فرض سے سکبدوش ہونا تھا۔ میں جانتا تھا اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں میں اذان کی آواز نہ پڑی تو وہ اپنی بیماری کی تکلیف سے بھی زیادہ تکلیف محسوس کریں گے۔

اذان دے کر میں پھر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے پر دستک دی چہرے کی پریشانی کچھ کم تھی میرے دل کو بھی ذرا اطمینان ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارے لئے پیغام دیا ہے کہ آج سے بہتر اذان تم نے کبھی نہیں دی۔

ایک روایت میں ہے کہ ایام مرض میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر حاضر ہوئے اور عرض کیا السلام علیک یارسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں پس سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ سر پر ہاتھ مارتے ہوئے اور فریاد بلند کرتے ہوئے باہر آئے۔ ان کو فریاد امید ٹوٹ جانے اور کمر شکست ہو جانے سے تھی ۔ کاش کہ میری ماں مجھے نہ جنتی اور اگر پیدا ہوا ہی تھا تو کاش مرجاتا اس دن سے پہلے ہی اور پیغمبر خدا سے یہ حال نہ دیکھتا۔ پس سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مسجد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل تھے ۔ بڑے اندوہ گیں ہوئے ۔یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر منہ کے بل گر پڑے صحابہ رونے لگے اور فریاد کرنے لگے۔

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کے لئے عرض کیا جیسا کہ ان کا معمول تھا کہ اذان دے کردربار نبوی میں حاضر ہوتے تھے اور نماز کے لئے عرض کرتے تھے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مسجد میں جمع ہونے کا پتہ دیا کرتے تھے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہہ دو کہ وہ نماز پڑھائیں۔

جس روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا اس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ اٹھا کردیکھا مسجد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فجر کی نماز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں پڑھ رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے پر کھڑے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر مبارک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر لگی ہوئی تھی ۔ بقول حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس یوں معلوم ہوتا تھا جیسے مصحف کا ایک ورق ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متبسم ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دروازے پر کھڑے دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو گمان ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف فرما ہو رہے ہیں ۔لہٰذا وہ بہت خوش ہوئے اور خواہش کرنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف فرما ہوں ۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی جگہ سے پیچھے ہٹ جانا چاہا لیکن سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بجانب صحابہ اشارہ فرمایا کہ وہ سب اپنی جگہ پر قائم رہیں اور نماز مکمل کریں ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ چھوڑ دیا اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکرات موت اور اس کی شدت کا احساس ہونے لگا ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پانی سے بھرا ہوا پیالہ پڑا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ ڈالتے اور ترکر کے اپنے چہرہ انور پر اس سے مسح فرماتے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ کبھی سرخ ہو جاتا اور کبھی زرد ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی دایاں ہاتھ اورکبھی بایاں ہاتھ کھنچتے تھے اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار پر انوار پر پسینہ آیا ہوا تھا۔ ان ہی لمحات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسواک فرمائی، رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر کلمات تھے۔ اللھم رب اغفرلی والحقنی بالرفیق الا علی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے روح انور پرواز گئی یہ چاشت کا وقت تھا۔ ۱۲ربیع الاول ۱۱ھ دوشنبہ (پیر)کا دن ۔عمر شریف تریسٹھ سال چار دن۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button