امام مسجد کی معاشی منصوبہ بندی

ایک ’’ملا جی‘‘ دہلی کی ایک مسجد میں امام تھے۔ امامت کے علاوہ ان کی ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ روزانہ قرآن کا درس دیں۔ ان تمام خدمات کا معاوضہ تھا۔ ماہانہ 25روپے تنخواہ، مسجد میں ایک ہجرہ اور دو وقت کاکھانا۔ نوجوان ملا جی اس مختصر معاوضہ پر قانع ہونے کے لیے تیار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسجد میرے لیے کم از کم ایک ٹھکانہ تو ہے۔ یہاں رہ کر میں اپنے بچوں کی تعلیم پوری کرا لوں گا۔ میں نہیں تو میرا بچہ مستقبل میں بہتر معاشی زندگی حاصل کر لے گا۔ مگر مسجد کے لوگوں کا سلوک ان کے ساتھ اچھا نہ تھا۔ ہر نمازی ان کو اپنا ملازم سمجھتا۔ ذرا ذرا سی بات پر ہر آدمی ان کے اوپر برس پڑتا اور ان کو ذلیل کرتا۔ کوئی فرش کے لیے، کوئی جھاڑو کے لیے ، کوئی لوٹے کے لیے ، کوئی کسی اور چیز کے لیے ان کے ساتھ بگڑتا رہتا۔ وہ معاشی تنگی برداشت کر سکتے تھے ، مگر ذلت ان کے لیے برداشت سے باہر تھی۔ بالآخر انہوں نے ایک نیا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے طے کیا کہ مجھے اپنی زندگی کو مستقل طور پر مسجد سے وابستہ نہیں رکھنا ہے بلکہ اپنے لیے کوئی دوسرا کام پیدا کرنا ہے۔ تاہم فوری طور پر مسجد چھوڑنا بھی برا ہے، کیونکہ مسجد کی امامت چھوڑنے کے لیے مسجد کا حجرہ ان سے چھن جاتا، اور شہر میں دوسری جگہ حاصل کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہوں نے مسجد کی امامت کرتے ہوئے شہر کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور خاموشی کے ساتھ طب کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ طبی تعلیم کی تکمیل میں ان کو پانچ سال لگ گئے۔ اس دوران وہ مسجد کے لوگوں کے برے سلوک کو پہلے سے بھی زیادہ خوش اسلوبی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ نئے فیصلے میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری تھا کہ وہ صبر کریں۔ ذلت کی زندگی سے نکلنے کی خاطر ذلت کی زندگی کو چند سال اور برداشت کریں۔ بالآخر وہ وقت آیا کہ انہوں نے طبی کالج سے سند حاصل کر لی۔ اب انہوں نے مسجد والوںکا شکریہ ادا کرتے ہوئے امامت سے استعفیٰ دے دیا اور شہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ کرایہ پر لے کر اپنا مطب کھول لیا۔ ان کی زندگی کے تلخ تجربات اور مستقبل کی خاطر ان کی طویل جدوجہد نے ان کو بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ انہوں نے نہایت محنت اور ہوشیاری کے ساتھ اپنا مطب چلایا ۔ صرف چھ ماہ بعد ان کی آمدنی اتنی ہو گئی کہ ایک مکان لے کر وہ بچوں کے ساتھ بفراغت رہنے لگے۔ ایک سال کے بعد انہیں مقامی طبی کالج میں لیکچرر کی جگہ بھی مل گئی۔ اس طرح ان کی معاشی زندگی میں مزید استحکام پیدا ہو گیا۔ کل کے ملا جی اب ڈاکٹر بن کر زندگی گزار رہے تھے۔ ان کووقعت بھی حاصل تھی اور معاشی فارغ البالی بھی۔ زندگی کے ناموافق حالات زندگی کے نئے زینے ہوتے ہیں جن کو استعمال کر کے انسان آگے بڑھ سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ ناموافق حالات سے نفرت اور شکایت کا سبق نہ لے ۔ بلکہ مثبت ذہن کے تحت اپنے لیے نیا مستقبل بنانے میں لگ جائے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button