کیا اسرائیلی افواج نے غزہ کو فتح کر لیا؟
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو ایک برس گزر گیا، حماس کو سزا دینے کے بہانے اسرائیل نے عورتوں اور معصوم بچوں سمیت بےگناہ شہریوں کا بھیانک قتل عام کیا، جس کی ماضی قریب میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ 42 ہزار سے زائد معصوم فل_سطینی اسرائیلی نسل کشی کا شکار ہو گئے، بیس لاکھ سے زائد لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں رہنے پرمجبور ہوئے، غزہ کا بینادی ڈھانچہ مکمل تباہ کرکے اسےایک کھنڈر میں بدل دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس قتل عام اور نسل کشی کےباوجود کیا اسرائیل نے غزہ میں اپنے فوجی اہداف حاصل کر لیے ہیں؟
غزہ پر جارحیت کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے تین اہداف کا اعلان کیا، جن میں حماس کا مکمل خاتمہ، دو سو سے زائد یرغمالیوں کی حماس کی قید سے رہائی، اور غزہ میں کٹھ پتلی حکومت کا قیام، جو اسرائیل کے سیاسی و سیکورٹی مفادات کا تحفظ کر سکے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کی 24 بٹالین میں سے اسرائیل صرف چار کو مکمل تباہ کرنے میں کامیاب ہو سکا، وسطی و شمالی غزہ سمیت جن علاقوں سے اسرائیلی فوج نے انخلاء کیا ہے، وہاں حماس دوبارہ منظم ہو گئی ہے۔ حماس نے اس وقت اسرائیل کے خلاف کم شدت کی گوریلا جنگ شروع کر رکھی ہے، جس میں آئے دن اس کے فوجیوں پر اسنائپر اور ٹینک شکن میزائلوں سے حملے ہو رہے ہیں، جن میں اسرائیل کے فوجی زخمی وہلاک ہو رہے ہیں۔ اسرائیل پر راکٹ باری کی صلاحیت میں کمی آنے کے باوجود بھی حماس اب بھی اسرائیل پر راکٹ برسانے کی صلاحیت رکھتی ہے، آج کے دن تل ابیب کو راکٹوں سے نشانہ بنانے سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل حماس کی راکٹ باری کی صلاحیت کو مکمل ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اسرائیل نے حماس کے زیر زمین سرنگوں میں سے درجنوں کو تباہ کیا، اس کے باوجود اسرائیل تمام سرنگوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا، اور اس وقت بھی حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کو سرنگوں میں قید کر رکھا ہے، جو اسرائیل کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان سمیت متعدد اعلی سطح حکام آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ حماس ایک نظریہ ہے، اور نظریے کو تباہ کرنا ناممکن ہے، 21 جون کو اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے ایک بیان میں کہا ” یہ خیال کہ حماس کو مکمل تباہ کر کے ختم کیا جا سکتا ہے، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر ہے”۔
اسرائیل کا دوسرا اہم جنگی ہدف حماس کی قید میں یرغمالیوں کی رہائی تھا، جس میں اسے ناکامی ہوئی۔ اس وقت بھی سو سے زائد یرغمالی ح ماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیلی فوجی طاقت کے بل بوتے پر قیدوں کو رہا کروانے میں بھی مکمل ناکام رہا۔ اسرائیل میں پچھلے ایک سال سے روزانہ تل ابیب میں قیدیوں کی رہائی کے لیےاحتجاج ہو رہا ہے، یرغمالیوں کے لواحقین نے نیتن یاہو پر الزام لگایا ہے، کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے جنگ بندی قبول نہیں کر رہے، جس کی وجہ سے سو سے زائد اسرائیلی شہری بدستور حماس کی قید میں ہیں۔
اسرائیل کا تیسرا ہدف غزہ میں جنگ کے بعد ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام تھا، جو اسرائیل کے سیاسی و سیکورٹی مفادات کا تحفظ کر سکے۔ اسرائیل چاہتا تھا، اس کے حلیف عرب ممالک غزہ میں اپنی فوجیں بھیجیں اور وہاں مغربی کنارے کے طرز پر ایک کٹھلی پتلی حکومت قائم کی جائے، جس کا کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہو، عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی نے کہا کہ وہ اسرائیلی ٹینکوں پر بیٹھ کر غزہ کبھی نہیں آئیں گے، نہ وہاں فوجیں بھیجیں گے اور نہ کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔
اسرائیل وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کے زریعے غزہ سے تمام فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک بے دخل کرنا چاہتا تھا، اس لیے پناہ گزین کیمپوں سمیت ہر مقام پر نہتے فل سطینیوں کو نشانہ بنایا، لیکن غزہ کے لوگوں نے یہ کہہ کر بے دخل ہونے سے انکار کر دیا کہ انھیں ایک اور ‘نکبہ’ قبول نہیں۔
بے تحاشہ طاقت کے استعمال سے اسرائیل کے خلاف امریکہ و یورپ سمیت پوری دنیا میں شدید نفرت پیدا ہو گئی ہے، جس کا ثبوت بڑے پیمانے پر اسرائیل مخالف مظاہرے ہیں، جن میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی ہے۔
اسرائیل اکثر ویکٹم یا مظلومیت کا کارڈ کھیلتے ہوئے اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرتا تھا، غزہ کے معصوم بچوں کے قتل عام سے اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے واضح ہو گیا ہے۔
امریکہ غزہ میں ہونے والے قتل عام کا اصل ذمہ دار ہے، جس نے بنکر شکن میزائلوں سمیت بڑے پیمانے پر اسرائیل کو گولہ بارود، مالی، سیاسی و سفارتی امداد فراہم کی ہے، گذشتہ ایک سال میں امریکہ نے اسرائیل کو ساڑھے چھ ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے، جسے اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں کی نسل کشی میں صرف کیا ہے، اس لیے امریکہ کے ہاتھ معصوم بچوں اور مرد و زن کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
8 اکتوبر کو حزب اللہ نے شمال میں حماس کے لیے امدادی محاذ کھولا، جس کا مقصد اسرائیل کی فوجی طاقت کو تقسیم کر کے حماس سے دباو کو کم کرنا تھا، حزب اللہ کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے حماس جنگ کو طول دینے میں کامیاب رہی، ستر ہزار سے زائد اسرائیلی شمال سے عارضی پناہ گاہوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ البتہ اس کوشش میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سمیت ٹاپ ملٹری کمانڈرز شہید ہو گئے اور لبنان کے ہزاروں بے گناہ شہری بھی جنگ کی نظر ہو گئے۔ حزب اللہ اور لبنانی شہریوں کی قدس کی راہ میں یہ گراں قدر قربانی ہے، جسے جتنا زیادہ خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
گزشتہ ایک سال میں اسرائیل کو ایران کے دو حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، جن میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ یکم اکتوبر کو ایران کی طرف سے کئے جانے والے میزائل حملے سے متعلق بین الاقوامی جریدے ملٹری واچ نے انکشاف کیا ہےکہ اسرائیل کی نیواتیم ائیربیس پر موجود 20 ایف 35 طیارے تباہ ہوئے ہیں، اور ائیربیس مکمل تباہ ہو گئی۔
غزہ و لبنان میں قتل عام اور حماس و حزب اللہ بظاہر بہت زیادہ نقصان پہنچانے کے باوجود اسرائیل اپنے اسٹراٹیجک و جنگی مفادات حاصل کرنے میں ناکام ہوا ہے، کیونکہ حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیل کے تمام بڑے شہروں کو کامیابی سے نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جس سے اسرائیل کے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل سے دوسرے ممالک ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اور اب تک پانچ لاکھ سے زائد صیہونی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اسرائیل پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہو چکا ہے، مسئلہ فلسطین تاریخ کے سردخانے سے نکل کر دنیا کا مسئلہ نمبر ایک بن چکا ہے، اور عالمی برادری اس کے مستقل و پائیدار حل کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ ابراہیمی معاہدے کے نام پر عرب و دیگر مسلمان ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اسرائیلی منصوبہ پر بھی پانی پھر گیا ہے، اور اب اپنے عوام کے غیض و غضب کے ڈر سے کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیل کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
حماس و حزب اللہ کو شدید فوجی زک پہنچانے، غزہ و لبنان کو تباہ کرنے، اسم اعیل ہنیہ، سید حسن نصر و ٹاپ ایرانی کمانڈرز کو شام و لبنان میں شہید کرنے کے باوجود بھی اسرائیل کو ٹیکٹیکل لیول پر کامیابی ملی ہے، جب کہ اسے لانگ ٹرم اسٹراٹیجک سطح پر ناکامی کا سامنا ہے، اور عسکری گروپوں کو تباہ کر کے اپنے شہریوں کو تحفظ کا جو احساس اسرائیل دینا چاہتا تھا، اس میں وہ مکمل ناکام ہو چکا ہے۔