کیا ’’آبادی اور وسائل میں توازن‘‘ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں شامل ہو گا؟

پاکستان کی بڑھتی آبادی کتنا بڑا چیلنج ہے ارباب اختیار کو شاید اس کا ادراک نہیں۔ حیرت ہے کہ نہایت توجہ کا حامل یہ مسئلہ حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھتی رہی اور 25کروڑ کے قریب آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن چونکہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے اس لئے پاپولیشن کونسل نے انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں سے ملاقات کر کے انہیں قائل کیا کہ وہ اپنے انتخابی منشور میں بڑھتی آبادی کے پیش نظر پالیسی کا اعلان کریں۔ پاپولیشن کونسل کےسینئر ڈائریکٹر پروگرامز ڈاکٹر علی میر کے مطابق پاپولیشن کونسل کی کوششوں سے سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں آبادی کو سنگین چیلنج کے طور پر تسلیم کیا ہے اب میڈیا کے نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو ان کے منشور اور آبادی کے حوالے سے کئے وعدے یاد دلاتے رہیں۔ ڈاکٹر علی میر نے کہا کہ ہمیں جس قدر آبادی کے مسائل کا سامنا ہے امید ہے نومنتخب وزیراعظم اپنی پہلی تقریر میں پالیسی بیان ضرور دیں گے۔ پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے ان سیاسی جماعتوں کے منشور کے وہ نکات جو آبادی سے متعلق تھے انہیں میڈیا کے نمائندوں کے سامنے تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے 2029-2024 کے لیے جاری کردہ منشور میں آبادی کے مسئلے کو ایک سنگین چیلنج کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جس نے ملک کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے اور وسائل کی کمی کا باعث بنا ہے، اس مسئلے سے نمٹنے کے لیےمسلم لیگ ن کے منشور میں ایک جامع حکمت عملی پیش کی گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے منشور کی اہم بات یہ ہے کہ آبادی کے مسئلے پر سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، منشور میں کامیاب ممالک جیسے ایران، انڈونیشیا، ملائشیا اور ترکی سے سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، جنہوں نے آبادی کی شرح میں کمی کر کے اپنے عوام کی زندگیوں کا معیار بلند کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے منشور میں پیش کردہ حکمت عملی کے چند اہم نکات
قومی آبادی انتظام کونسل کا قیام: اس کونسل کا مقصد آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ ایجنڈے کو تیار اور عمل درآمد کرنا ہے۔
پیدائش کے درمیان وقفہ: منشور میں والدین کو بچوں کے درمیان وقفہ کرنے کی ترغیب دی جائے گی تاکہ وہ ان کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربیت پر توجہ دے سکیں اور وسائل کی بچت ہو سکے۔
5 نکاتی آبادی منصوبہ بندی کا ایجنڈا: اس ایجنڈے میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی دستیابی میں اضافہ، صحت کی کارکنوں کی تعداد میں اضافہ، خدمات تک رسائی میں رکاوٹوں کا خاتمہ، اور تمام ذرائع ابلاغ کے ذریعے آگاہی مہم چلانا شامل ہے۔
قومی آگاہی مہم: منشور میں آبادی کے انتظام کے بارے میں قومی سطح پر آگاہی مہم چلانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تعلیمی نصاب میں شمولیت: آبادی کے انتظام کو قومی تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔
مجموعی طور پرپاکستان مسلم لیگ (ن) کا آبادی کے بارے میں منشور ایک جامع حکمت عملی پیش کرتا ہے، جس کا مقصد اس سنگین مسئلے سے نمٹ کر ملک کی ترقی اور عوام کی زندگیوں کا معیار بلند کرنا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے 2029-2024کے منشور میں آبادی کے مسئلے کو بنیادی چیلنج کے طور پر تسلیم کیا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی پیش کی ہے۔ منشور میں آبادی کے مسئلے کو بنیادی انسانی حقوق سے جوڑتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی وسائل کی کمی، ماحولیاتی مسائل، اور غربت جیسے چیلنجز کا باعث بن رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کی اہم بات یہ ہے کہ آبادی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حقوق پر مبنی اور رضاکارانہ نقطہ نظر اپنایا جائے گا۔ اس ضمن میں منشور میں مندرجہ ذیل اقدامات کی تجویز پیش کی گئی ہے:
قومی مکالمہ: آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وفاقی اکائیوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم پر ایک قومی سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جائے گا۔
خاندانی منصوبہ بندی: خاندانی منصوبہ بندی کے لیے رضاکارانہ اور حقوق پر مبنی نقطہ نظر کو فروغ دیا جائے گا۔ اس میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو خاندانی منصوبہ بندی کے فیصلوں اور خدمات کی فراہمی میں شامل کیا جائے گا۔
ہر مرحلے پر مدد: حمل کے بعد اور حمل کے خاتمے کے بعد خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کو فروغ دیا جائے گا۔ اس کے لیے تمام زچگی وارڈز، او پی ڈیز، قبل از پیدائش اور بعد از پیدائش وارڈز اور لیبر رومز میں خاندانی منصوبہ بندی کے مشیروں کا ایک مخصوص ٹیم تشکیل دی جائے گی۔
مشاورت کی مضبوطی: خاندانی منصوبہ بندی کے کارکنوں کو مشاورت فراہم کرنے، ضمنی اثرات، افواہوں اور غلط فہمیوں سے نمٹنے کے لیے تربیت دی جائے گی۔
مردوں میں نس بندی: خاندانی منصوبہ بندی کے لیے ایک فعال اقدام کے طور پر مردوں میں نس بندی کی ترغیب دی جائے گی۔
حمل روکنے والی ادویات کی شرح میں اضافہ: پیپلزپارٹی کا مقصد 2030 تک حمل روکنے والے ادویات کی شرح (سی پی آر) کو 60 فیصد تک بڑھانا، فی خاتون بچوں کی شرح پیدائش کو 2.2 تک کم کرنا اور آبادی کے شرحِ نمو کو 1.1 فیصد تک کم کرنا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی: تمام سرکاری اور نجی طبی سہولیات میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات، بشمول مفت دستیابی حمل روکنے والے ادویات، تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔
حمل روکنے والے انجیکشن کی تربیت: لیڈی ہیلتھ ورکرز کو حمل روکنے والے انجیکشن لگانے کے لیے جامع تربیت کے پروگرام چلائے جائیں گے۔
مقامی پیداوار کی ترغیب: مقامی پیداوار کے یونٹوں، خاص طور پر آئی یو سی ڈی جیسے طویل مدتی حمل روکنے والے ادویات کے لیے، فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں کہا ہے کہ پاکستان تیزی سے بڑھتی آبادی کے سنگین چیلنج کا سامنا کر رہا ہے، جس سے وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع جیسے اہم شعبوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے، پاکستان تحریک انصاف ایک جامع حکمت عملی تجویز کرتی ہے۔
بلند شرح پیدائش: پاکستان میں دنیا کی بلند ترین شرح پیدائش میں سے ایک ہے، جو بنیادی طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں کم آگاہی اور محدود رسائی کی وجہ سے ہے۔
کم تعلیم: خاص طور پر خواتین میں کم تعلیم شرح پیدائش کو بڑھاتی ہے۔ تعلیم عام طور پر دیر سے شادی اور کم خاندان کے سائز سے جڑی ہوتی ہے۔
محدود صحت کی سہولیات: دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات اور تولیدی صحت کی معلومات تک رسائی کو محدود کرتی ہے۔
ثقافتی روایات: بعض ثقافتی اور مذہبی عقائد خاندانی منصوبہ بندی کی کوششوں میں رکاوٹ بنتے ہیں، جس کے نتیجے میں ابتدائی اور بار بار حمل ٹھہر جاتے ہیں۔
صنفی عدم مساوات: صنفی عدم مساوات خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں فیصلے کرنے کی طاقت کم کرتی ہے، کیونکہ بہت سی خواتین کو تولیدی امور میں کم اختیار حاصل ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکمت عملی کے کلیدی نکات:
تعلیم اور آگاہی مہمات: پی ٹی آئی وسیع پیمانے پر عوامی آگاہی مہموں میں سرمایہ کاری کرے گی، جو خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد اجاگر کریں گی اور اس کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کریں گی۔
مذہبی رہنماؤں کے ساتھ تعاون: پارٹی اس بات کا یقین رکھتی ہے کہ اس مسئلے سے احترام کے ساتھ اور انفرادی عقائد اور ثقافتی حساسیت کا خیال رکھتے ہوئے نمٹنا ضروری ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کو مذہبی اقدار کے فریم ورک کے اندر فروغ دینے کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے اور کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایسے باصلاحیت علما سے مشورہ کیا جائے گا جو افراد کی مخصوص حالات اور عقائد کے مطابق رہنمائی فراہم کر سکیں۔ بنیادی طور پر، ذمہ دار والدین کے اصول، ماؤں اور بچوں کی بہتر صحت، اور انفرادی حالات پر غور کرنے کی اہمیت کو اکثر اسلامی تعلیمات میں زور دیا جاتا ہے، اور انہیں اسلامی فریم ورک کے اندر خاندانی منصوبہ بندی کی کوششوں کی حمایت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صحت کی سہولیات میں بہتری: پی ٹی آئی خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں صحت کے بنیادی ڈھانے کو بہتر بنانے اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گی۔ حکومت کی صحت کی سہولیات اور آؤٹ ریچ پروگراموں کے ذریعے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، کنٹراسیپٹِوز کی وسیع دستیابی اور سستی قیمت کو یقینی بنایا جائے گا۔
خواتین کی بااختیاری: خاندانی منصوبہ بندی کو پاکستان میں کامیاب بنانے کے لیے ایک اور اہم پہلو صنفی مساوات کو فروغ دے کر، خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنا کر اور اس کے نتیجے میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں ان کی فیصلہ سازی کی طاقت کو بڑھا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا منشور پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں بتاتا ہے کہ:
پاکستان کی آبادی آزادی کے بعد سے اب تک 6 گنا بڑھ چکی ہے، جو اس کے قدرتی وسائل سے کہیں زیادہ ہے، جس کی وجہ سے گذشتہ دہائیوں میں ہونے والی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔
1998 کی مردم شماری میں 132 ملین سے 2023 میں 241 ملین تک آبادی میں بڑا اضافہ ہوا ہے، اور اگلے 25 سالوں میں مزید 110 ملین افراد شامل ہونے کا تخمینہ ہے، جس کا اثر زندگی کے تمام شعبوں پر پڑے گا، خاص طور پر محدود قدرتی وسائل کی کمی اور ماحول پر۔
فی کس پانی کی دستیابی 1960 میں 5000 کیوبک میٹر سے کم ہو کر اب 930 کیوبک میٹر رہ گئی ہے، جو کہ پانی کی کمی والے ملک کی حد سے بہت نیچے ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان شدید پانی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
90 کی دہائی میں خوراک سے بھرپور ملک سے ہم 2020 میں ایک بنیادی فصل کی کمی والے ملک بن چکے ہیں۔
ایم کیو ایم کی حکومت آبادی منصوبہ بندی کو ترجیح دے گی تاکہ:
قدرتی اور انسان ساختہ وسائل کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔
تمام پاکستانیوں کو مساوی مواقع، صحت، تعلیم، رہائش، روزگار اور بنیادی حقوق تک رسائی فراہم کرنا ممکن بنایا جائے۔
اس مقصد کے لیے ایم کیو ایم کی تجاویز:
ہم یقینی بنائیں گے کہ بنیادی تولیدی صحت کی خدمات بشمول خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات ملک کے تمام شہریوں کے لیے سستی اور آسانی سے دستیاب ہوں۔
زیادہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور کمیونٹی مڈوائفز کی بھرتی کرکے گھر تک خدمات کی کوریج کا توسیع کرنا۔
شادی شدہ جوڑوں کو خدمات تک رسائی میں رکاوٹ بننے والی تمام معلومات اور مالیاتی رکاوٹوں کو دور کرنا۔
سرکاری اور نجی شعبے میں خدمات کی فراہمی کے تمام چینلز کا استعمال کرکے ان خدمات کی فراہمی کو وسعت دینا۔
تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کے درمیان آبادی کے حجم اور دستیاب وسائل کے درمیان توازن پیدا کرنے کی اہمیت کے بارے میں قومی اتفاق رائے کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنا۔
ہم آبادی منصوبہ بندی کے لیے فوری طور پر ترجیحی بنیادوں پر مناسب وسائل فراہم کریں گے جس میں مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنایا جائے گا۔
ہم ان غریب ترین خاندانوں کی مدد کے لیے سماجی تحفظ کے پروگراموں کی توسیع کریں گے جو بڑے خاندان کے سائز اور اپنے بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے خوراک، رہائش، صحت اور تعلیم فراہم کرنے میں عدم صلاحیت کے درمیان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
مجموعی طور پر، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا مقصد آبادی کے حجم اور دستیاب وسائل کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے، تاکہ تمام پاکستانیوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے کہا کہ مذکورہ چار جماعتوں کا حکومت بنانے اور اپوزیشن میں آنے کا قوی امکان ہے اس لئے میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں کئے گئے وعدے یاد دلاتے ہوئے ان سے سوالات کریں کہ 5 کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تیزی سے بڑھتی آبادی غربت میں مزید اضافہ کر رہی ہےکیا اس کا حل آپ کی ترجیحات میں شامل ہے؟پاکستان میں ہر تیسرا بچہ سکول سے باہر ہےجو تیزی سے بڑھتی آبادی کی ایک وجہ ہے آپ مزید اسکولوں کے قیام کے لئے کیا اقدامات کریں گے؟ماں کی زندگی سب کو پیاری اور بچوں کیلئے تحفہ ہے ہر سال بوجہ زچگی 11 ہزار مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جس میں خاندانی منصوبہ بندی سے 38 سو ماؤں کو بچایا جا سکتا ہے۔ ماؤں کی زندگی بچانے کیلئے آپ کا ایکش پلان کیا ہو گا؟ہر سال 15 لاکھ نوجوانوں کیلئے نوکریوں کی ضرورت کو کیسے پورا کیا جائے گا؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button