جمعیت علماء اسلام عام انتخابات میں کیوں ہاری؟

آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن میں جمعیت علماء اسلام وہ کارکردگی نہ دکھا سکی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جمعیت کا کارکن شدید مایوس بھی ہے اور غصے میں بھی ہے کیوں کہ 2018کے الیکشن کے بعد عمران نیازی کی فسطائیت کا مقابلہ جمعیت ہی نے کیا۔ پارلیمنٹ کے اندر و باہر صحیح معنوں میں اپوزیشن کا کردار بھی جے یو آئی نے ادا کیا، سختیاں برداشت کیں، مقدمات اور تشدد کا سامنا کیا نیازی کے بدترین میڈیا ٹرائل کو بھی جھیلا اور پھر سب سے بڑھ کرعمران نیازی کی حکومت کا بوریا بستر گول کرنے والی تحریک کی سربراہی بھی مولانا فضل الرحمن نے کی۔

مولانا فضل الرحمن کے تاریخی لانگ مارچ اورپی ڈی ایم کی تحریک کا نتیجہ تھا کہ عمران نیازی کی حکومت کمزور ہوئی۔ اداروں کو اس کے سر سے دست شفقت اٹھانا پڑا اور بالآخر اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں عمرانی حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوئیں۔ یوں مولانا فضل الرحمن اورجمعیت کے کارکن مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کے محسن ٹھرے۔ کیوں کہ انہی کی قربانیوں کی بدولت ان دونوں جماعتوں کی سیاست میں واپسی ہوئی بلکہ ان کی قیادت کو ریلیف بھی ملا مگر جب پھل کھانے کا وقت آیا تو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے اپنی جھولیاں بھر دیں۔

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں

ہمارے حصے میں عذر آئے، جواز آئے، اصول آئے

جے یو آئی کی شکست کی وجوہات کا جائزہ لیں تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام ہمیشہ کامیابی حاصل کرتی رہی ہے جہاں مذہب کی جڑیں کافی مضبوط ہیں، خیبرپختونخوا میں عمران نیازی کی دس سالہ حکومت کا نتیجہ ہے کہ وہاں کے عوام اب ایک شیخ الحدیث اورعالم دین کے مقابلے میں کسی سرمایہ دار یا خان کو ووٹ دینے کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ اس سے قبل ایک سائیکل سوار عالم سرمایہ دار کو بآسانی چت کر دیتا تھا۔ یہ وہ ایجنڈہ تھا کہ جس کے لیے عمران نیازی کواس قوم پرمسلط کیا گیا تھا کہ ان علاقوں سے مذہب کی جڑوں کو کھرچ کر یہاں کے عوام کا مذہبی لوگوں اور مدارس سے اعتماد ختم کیا جائے کیوں کہ استعماری طاقتوں کو خطرہ انہی لوگوں سے ہے، مولانافضل الرحمن اس ایجنڈے کے حوالے سے کافی باراظہاربھی کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی بھی یہ سمجھتی ہے کہ ان کے اس ایجنڈے میں سب سے بڑی رکاوٹ جمعیت علماء اسلام ہے ۔

اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کی نسبت بلوچستان میں جمعیت کی کارکردگی کافی بہتر رہی ہے جمعیت وہاں سے خاطرخواہاں سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب  ہو گئی ہے، مولانا فضل الرحمن انتخابی مہم چلائے بغیر اسی صوبے سے قومی اسمبلی کے ممبر بنے ہیں جمعیت کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری بھی اپنی نشست جیت گئے ہیں جمعیت بلوچستان میں اختلافات اور مولانا شیرانی گروپ کی موجودگی کے باوجود جمعیت کا یہاں سے کامیاب ہونے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ صوبہ ابھی تک، عمرانی نظریئے، سے محفوظ ہے اور کوشش کے باوجودعمران نیازی یہاں قدم نہیں جما سکا ہے۔

اب چوں کہ دونوں طرف  سے یہ سیاست سے زیادہ نظریات کی جنگ بن کرنفرت میں تبدیل ہو چکی ہے، مولانافضل الرحمن نے بھی پی ٹی آئی کے خلاف جارحانہ سیاست کی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس کا ردعمل دونوں جماعتوں میں کارکنوں میں پایا جاتا ہے۔ جے یو آئی حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے ووٹرز کے اسی ردعمل کا شکار ہو گئی ہے۔ جبکہ جمعیت علماء اسلام کے کارکن اس ردعمل کا مقابلہ نہ کر سکے اور اپنا بیانیہ درست طریقے سے عوام تک نہ پہنچا سکے کیوں کہ جے یو آئی کے کارکن طویل احتجاج اور عمران کو گھر بھیجنے کی صورت میں اپنا ردعمل پہلے ہی دے چکے تھے۔

اس الیکشن کے دوران مجھے خیبرپختونوا کے کئی علاقوں میں جانے کا موقع ملا اور جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں، رہنمائوں اور کارکنوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اکثرمقامات پر کارکن اور مقامی رہنماء قیادت کے فیصلوں سے ناراض نظر آئے اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جماعت کے مقامی رہنمائوں کی مشاورت کے بغیر فیصلے مسلط کیے گئے۔ دیرینہ کارکنوں کو دیوار سے لگا کر چھتری برداروں کوترجیح دی گئی ۔قیادت اورکارکنوں میں دوریاں پیداکی گئیں ۔اسی طرح مرکزی اور صوبائی قیادت کو چند لوگوں نے گھیرا ہوا ہے اور انہی مخصوص لوگوں یا خاندان پر نوازشات جاری ہیں ، جمعیت میں بھی آہستہ آہستہ آمرانہ مزاج رواج پا رہا ہے۔

پورے ملک میں تنظیم سازی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ کئی علاقوں میں تنظیمی اختلافات کو حل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کارکنوں کی شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ کس کو جماعت میں شامل کرنا ہے کس کو نکالنا ہے مقامی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا قیادت نے اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو ترجیح دی یہی وجہ ہے کہ بعض جگہوں پر ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی شکایات بھی سامنے آئیں۔ اس حوالے سے صرف ایک مثال سامنے رکھوں گا کہ میڈیا کے محاذ پر حافظ حسین احمد کے بعد جنگ لڑنے والے حافظ حمداللہ کو ٹکٹ نہیں دیا گیا حالانکہ ان کے حلقے کے کارکن صوبائی اور مرکزی قیادت سے اپیلیں کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ نو سالوں میں مرکز اور صوبے نے مقامی قیادت سے اپنی ڈیمانڈز تو پوری کروائیں مگر جب وفاق میں ڈیڑھ سال کی حکومت ملی توان کارکنوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں کھڈے لائن لگا دیا گیا اور دیہاڑی دار مفادات سمیٹتے رہے۔

ایک مسئلہ یہ بھی د یکھنے میں آیا کہ جمعیت کی صفوں میں علماء اور غیر علماء کے حوالے سے بھی اختلاف پایا جاتا ہے اگرچہ اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن وسیع الظرف ہیں انہوں نے کوشش کی ہے کہ جمعیت کا دامن وسیع کیا جائے اور اس میں ہر قسم کے افراد کو شامل  کیا جائے مگر کئی مقامات پر دیگر جماعتوں سے آنے والے غیرعلماء جمعیت کے رنگ میں نہ ڈھل سکے اس کی بڑی مثال بنوں کی ہے جہاں کے علماء نے اس مرتبہ اکرم درانی کے خلاف اتحاد تشکیل دے کراپنے امیدوار کھڑے کیے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی علاقوں میں جمعیت کے امیدواروں کو مدارس اورعلماء سے وہ رسپانس نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔

جے یو آئی کی قیادت کو سب سے زیادہ دہشت گردی کے خطرات کا سامنا تھا ان کے متعدد رہنماء اور کارکن شہید ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے جے یو آئی کے امیدواروں کو  انتخابی مہم چلانے میں بھی شدید دشواری تھی، اس کا آسان حل سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال تھا مگر جمعیت علماء اسلام سوشل میڈیا پر مؤثرانداز میں بھی اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکی اور نہ ہی جمعیت کی قیادت کوئی مضبوط انتخابی بیانیہ دے سکی، یہی وجہ ہے کہ جمعیت کے بعض رہنمائوں تک کومعلوم نہیں تھا کہ کون سے حلقے میں ان کا کون سا امیدوار ہے اور اس کا کس سے مقابلہ ہے؟ دیگر سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے محاذ پر جمعیت سے بہت آگے ہیں پی ٹی آئی کی ساری انتخابی مہم سوشل میڈیا کے ذریعے چلائی گئی، جہاں تک بیانیے کا تعلق ہے تو جمعیت علماء اسلام انتخابی منشورکے اعلان کا تکلف تک نہیں کرتی؟

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے مخالفین کی طرف سے اعتراضات اور سازشی تھیوریاں پھیلائی جاتی ہیں یہاں بھی جمعیت کو مشکلات کا سامنا رہا سوشل میڈیا پر سب سے بڑا اعتراض یہ دیکھنے کوملا کہ مولانافضل الرحمن اپنے خاندان کے افراد کو نوا زتے ہیں جیسے اس الیکشن میں مولانا خود دو حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے مزید یہ کہ ان کے دو بیٹے ، دو بھائی ، ایک بھتیجا بھی انتخابی میدان میں موجود تھا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر وہی چند خواتین گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے قابض ہیں جن کا تعلق مولانا کے خاندان سے ہے اسی طرح ایک بھائی سینیٹر ہے تو ایک رشتے دارگورنر ہے وغیرہ۔ جمعیت کے کارکن  اس طرح کے اعتراضات کا دفاع کرنے سے قاصر نظر آئے۔ جمعیت کی قیادت کو بھی اس حوالے سے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ جمعیت علماء اسلام انتخابی حکمت عملی بھی درست طریقے سے نہیں بنا سکی پنچاب میں ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے جمعیت کے پی اور بلوچستان میں بھی ن لیگ یا دیگر کسی سیاسی و مذہبی جماعت سے معاملہ طے نہیں کرسکی جس کا زیادہ نقصان جے یوآئی کو ہوا۔ کئی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے گروہوں یا امیدواروں سے ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے کی بناء پرجمعیت کے متعدد امیدوار شکست کھا گئے اس کی ایک مثال این اے 13بٹگرام کی ہے جہاں بہتر حکمت عملی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جا سکتی تھی ۔

جے یو آئی نے سندھ نے قدرے بہتر حکمت عملی بنائی مگر وہ زرداری کے طلسم کو نہ توڑ سکے۔ جے یوآئی نے سندھ سے قومی اسمبلی کی 61 سیٹوں میں سے محض 16 نشستوں پر حصہ لیا اور جمعیتہ کے امیدواروں نے 465,797 ووٹ حاصل کئے ۔ اسی طرح سندھ  اسمبلی کی 130 سیٹوں میں سے محض 36 نشستوں پر جمعیت علما اسلام نے 420,918 ووٹ حاصل کئے جبکہ قومی اورصوبائی اسمبلی کی باقی تمام سیٹیں اتحادی جماعتوں کے لیے خالی چھوڑیں۔ جمعیت علما اسلام سندھ سے کوئی سیٹ توحاصل نہ کرسکی مگر جمعیت نے سندھ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 191 میں سے صرف 52 نشستوں پر 886,715 ووٹ حاصل کئے جو کہ ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button