عمران خان اس مقام تک کیسے پہنچے؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان کو سائفر کیس میں 10 سال کی سزا جبکہ توشہ خانہ کیس میں انہیں اور بشریٰ بی بی کو 14،14 سال کی سزا کے ساتھ مجموعی طور پر ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ اگر انہیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ریلیف نہیں ملتا ہے تو وہ 10 سال تک کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نااہل رہیں گے۔

پی ٹی آئی کے حمایتی اپنے لیڈر کو سنائی جانے والی دونوں سزاؤں کو سیاسی انتقام سے تعبیر کر رہے ہیں، پی ٹی آئی کے اس مؤقف کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم کچھ غلطیاں ایسی تھیں جو اقتدار میں رہتے ہوئے خان صاحب سے سرزد ہوئیں، آج دراصل وہ انہی غلطیوں کی وجہ سے کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں۔

خان صاحب اقتدار میں کیسے آئے؟ یہ ہمارا موضوع نہیں۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد جمہوری تقاضوں کو پورا کرنا اور مملکت کے امور کا خیال رکھنا ان کی ذمہ داری تھی، خان صاحب نے مگر مملکت کے امور کو سجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ سائفر کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ مجھ سمیت اکثریت خان صاحب کو محب وطن سمجھتی ہے لیکن سائفر کے معاملے پر جس طرح کی سنجیدگی دکھانے کی ضرورت تھی خان صاحب اس کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ سائفر ریاستی راز تھا جسے افشا کرنا ہی سب سے بڑی غلطی تھی افسوس شاہ محمود قریشی جیسا شخص بھی خارجہ امور کی حساسیت کا ادراک نہ کر سکا، اور ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا جس کا آگے چل کر نقصان واضح تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ کروڑوں لوگ خان صاحب کو چاہتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور انہیں اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوام کی حمایت کسی بھی لیڈر کی اصل طاقت ہوتی ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خان صاحب اپنی طاقت کو سمجھتے مگر خان صاحب اس کھلی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے اور ان پتوں پر انحصار کرنے لگے جنہوں نے موسم خزاں میں گر جانا تھا۔

نواز شریف اور آصف زرداری خان صاحب سے زیادہ ذہین نہیں ہیں مگر مملکت کے امور کو سمجھتے ہیں، جب کبھی مشکل وقت آتا ہے تو یہ لوگ ماہرین سے مشاورت کرتے ہیں، جیسا کہ نواز شریف صاحب شروع میں ایٹمی دھماکوں کے حق میں نہیں تھے لیکن جب انہوں نے حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر کی فضا دیکھی کہ سارے لوگ دھماکوں کے حق میں ہیں تو انہوں نے دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا، اب وہ ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لیتے ہیں۔

سائفر کا معاملہ بھی خان صاحب کے حق میں جا سکتا تھا انہیں اس کا سیاسی فائدہ ہونا ہی تھا لیکن ایک لیڈر کو جس تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے خان صاحب وہ تحمل نہ کر سکے۔ یوں جو چیز ان کی حمایت میں جا رہی تھی وہ ان کیلئے نہایت نقصان دہ بن گئی۔ نواز شریف نااہل کئے جانے کے بعد اگرچہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج پر کھلے عام تنقید کرتے رہے ہیں مگر موقع ملتے ہی وہ کہہ رہے ہیں کہ ان پر متعدد بار مشکل وقت آیا مگر انہوں نے قومی راز افشا نہیں کئے۔ سو سائفر کا خطرناک پہلو ہی یہ تھا کہ خان صاحب نے اسے عوام کے سامنے پیش کر دیا۔

سائفر کے معاملے پر اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ خان صاحب کو مسئلے کی حساسیت کا علم نہیں ہوا اور انجانے میں غلطی ہو گئی تو بے جا نہ ہو گا مگر توشہ خانہ کیس میں ایسا بھی نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ توشہ خانہ میں جو کیا گیا وہ جان بوجھ کر اور درست سمجھ کر کیا گیا۔

سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ خان صاحب نے توشہ خانہ کے معاملے پر غلطی کیا کی ہے؟ اس کے بعد موازنہ کریں گے کہ ماضی میں توشہ خان سے تحائف لینے والوں میں اور خان صاحب کے تحائف لینے میں کیا فرق ہے؟

بطور وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی نے غیر ملکی سربراہان سے مجموعی طور پر 108 تحائف حاصل کیے، 108 تحائف میں سے 14 کروڑ روپے مالیت کے 58 تحائف اپنے پاس رکھے۔ خان صاحب کے اہل خانہ نے پچاس فیصد ادائیگی کر کے جیولری سیٹ 90 لاکھ روپے میں اپنے پاس رکھ لیا۔ خان صاحب کا مؤقف ہے کہ انہوں نے تحائف کی پچاس فیصد ادائیگی کی جو پہلے کسی نے نہیں کی کیونکہ پہلے حکمران دس سے پندرہ فیصد ادا کر کے تحائف اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔

یہاں خان صاحب سے ایسی غلطی ہو گئی جس سے دامن چھڑانا آسان نہیں تھا۔ وہ یہ کہ جیولری سیٹ کی اصل قیمت کو چھپایا گیا، کیونکہ جیولری سیٹ کی اصل مالیت 1 ارب 57 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی۔ یہ خیانت تھی جو خان صاحب جیسے لیڈر کو زیب نہیں دیتی تھی سو الیکشن کمیشن نے غلط بیانی کے جرم میں انہیں نااہل قرار دیا۔ اسی طرح خانہ کعبہ کے ماڈل والی گھڑی کے معاملے میں بھی غلط بیانی اور خیانت واضح ہے۔ خان صاحب نے خود کہا کہ خانہ کعبہ ماڈل والی گھڑی اسلام آباد میں فروخت کی گئی ایک جعلی رسید کو بطور ثبوت پیش کیا گیا۔

رسید میں جس دکان میں گھڑی فروخت کرنے کا دعویٰ کیا گیا اس دکان کے مالک کا مؤقف مختلف نکلا، دکان کے مالک نے اپنا نام شفیق بتاتے ہوئے کہا کہ جناح سپر مارکیٹ ایف 7 اسلام آباد میں میری دکان ہے، میرے خلاف پروپیگنڈا چل رہا ہے کہ میں نے عمران خان کی گھڑی خریدی ہے۔ شفیق کے مطابق نہ میں نے کوئی گھڑی خریدی اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے، نہ وہ میرا بل ہے، نہ دستخط ہیں، نہ میری لکھائی ہے۔ شفیق نے کہا کہ میری دکان کی اسٹمپ کا غلط استعمال ہوا ہے، میں خاصے عرصے سے خاموش تھا کہ معاملہ ختم ہو جائے لیکن مجھے ہر طرف سے پریشانی ہوئی، میرا نام استعمال کیا جا رہا ہے ان تمام باتوں کی تردید کرتا ہوں۔ اس تردید کے بعد انکشاف ہوا کہ فرح گوگی نے دبئی میں عمر فاروق ظہور نامی شخص کو گھڑی فروخت کی، جب مبینہ خریدار سامنے آیا تو اس کی تمام تر تفصیلات بھی سامنے آ گئیں، فرح گوگی گھڑی کے 5 ملین ڈالر حاصل کرنا چاہتی تھی مگر 2 ملین ڈالر پر ڈیل فائنل ہوئی۔ فرح گوگی کو رقم کیش میں دی اور ادائیگی درہم میں کی گئی جو 750 ملین درہم بنتی تھی۔ گھڑی سے ملنے والی رقم 2 ملین ڈالر اس وقت کے ڈالر ریٹ کے حساب سے پاکستانی کرنسی میں 28 کروڑ روپے بنتی ہے، جبکہ بانی پی ٹی آئی نے یہ گھڑی توشہ خانہ سے صرف سوا 2 کروڑ روپے کی خریدی تھی۔ یوں گھڑی کے معاملے میں بھی اپنی مرضی کی ویلیو لگا کر خیانت کی گئی۔

اب خان صاحب کا موازنہ کرتے ہیں سابق حکمرانوں سے۔ یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف، آصف زرداری سمیت اہم شخصیات دس سے پندرہ فیصد ادائیگی کر کے توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرتی رہی ہیں یعنی کروڑ روپے مالیت کے تحفے کے 10 لاکھ روپے ادا کر کے تحفے کے مالک بنتے رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں خان صاحب نے 50 فیصد ادائیگی کی مگر پھر بھی زیر عتاب ہیں تو اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خان صاحب نے اپنی مرضی کی ویلیو سیٹ کر کے 50 فیصد ادا کئے ہیں جبکہ اس سے پہلے حکمران مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ادائیگی کرتے رہے ہیں۔

سائفر اور توشہ خانہ کیس کا جائزہ لینے سے خان صاحب کی ناتجربہ کاری اور امور سلطنت سے ناواقفیت عیاں ہوتی ہے، اس لئے خان صاحب محب وطن ہونے کے باوجود آج اپنی غلطیوں کی سزا کاٹ رہے ہیں جس دھڑلے سے خان صاحب غلطیوں پر غلطیاں کرتے رہے ہیں اس حساب سے یہ سزا کم ہے اگر وہ خود کو مسلم اُمہ کا لیڈر کہلانا پسند کرتے ہیں تو ابھی انہیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button