انتخابات کے بعد مافیاز کے گرد گھیرا تنگ ہو گا؟

اینٹی اسمگلنگ کارروائیوں نے ڈوبتی معیشت کی سانس بحال کی۔ اینٹی ڈالرا سمگلنگ نے روپے کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دیا۔ ذخیرہ اندوروں کے خلاف بھرپور کاروائیاں ہوئیں۔ گندم اور چینی کی اسمگلنگ مکمل طور پر روک لی گئی۔ تمام شوگر ملوں کوایف بی آر کے نظام سے منسلک کر دیا گیا۔ اسلحہ کی اسمگلنگ ختم ہوئی۔ نادرا میں بننے والے غیر ملکیوں کے پاکستانی شناختی کارڈ، غیر ملکیوں کو جاری ہونیوالے پاکستانی پاسپورٹ اور جتنے مافیاز پاکستانی معیشت کو جکڑے ہوئے تھے ان تمام کے خلاف افواج پاکستان کی سپورٹ سے بھرپور کارروائی ہوئی۔ جس کے سبب معیشت کو سنبھالا ملا۔ بڑے بڑے جرائم پیشہ یہ دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے، ہر ادارے کی کارروائی کے پیچھے افواج پاکستان کی سپورٹ موجود ہے۔ انہوں نے حالات کو پوری طرح سمجھا اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے کہ ابھی کچھ کیا تو اور زیادہ نقصان ہو گیا۔ الیکشن کے بعد دیکھیں گے ہمیں کون روکتا ہے۔ ان کی سوچ قطعاً عجیب نہیں، دراصل یہ تمام بڑے بڑے جرائم پیشہ کاروباری حضرات مختلف پارٹیوں میں شامل ہیں بلکہ ہر بڑے مافیا کے مختلف ممبران مختلف پارٹیوں میں اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔

ماضی میں پارٹیوں کا اقتدار بدلتا رہا مگر ان کے غیر قانونی کاروبار میں کوئی فرق نہ آیا۔ یعنی کوئی پارٹی بھی اقتدار میں آجائے ان کا کاروبار رواں دواں رہتا ہے۔ کبھی کسی نے ہمت ہی نہیں کی تھی ان پر ہاتھ ڈالنے کی۔ پہلی بار ڈالر باہر جانے سے روکا گیا۔ تیل کی اسمگلنگ رکی، گندم کے ٹرک سرحد عبور نہ کر سکے۔ شوگر مل والے اپنے ملک کی چینی بیرون ملک نہ بھیج سکے۔ ماضی میں چینی تو سرکاری طور پر اسمگل ہوتی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آرمی چیف کی خصوصی دلچسپی کے سبب تمام غیر قانونی دھندوں کے آگے دیوار کھڑی کی گئی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ انہیں روکنے سے دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی۔

یاد کریں جیسے ہی ان تمام مافیاز پر ہاتھ ڈالا گیا تھا، دہشت گردی میں یک لخت تیزی آئی تھی۔ یہ اور بات کہ افواج پاکستان نے اس پر بہت جلد کنٹرول کر لیا۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ ان تمام دھندوں کا دہشت گردی سے گہرا تعلق ہے۔ یہ لوگ کہیں دہشت گردوں کو بھتہ دیتے ہیں تو کہیں خود دہشت گردی کرا کے غیر ملکی طاقتوں سے رقم وصول کرتے ہیں۔ ان غیر قانونی دھندوں والوں کا نہ کوئی وطن ہے اور نہ کوئی مذہب۔ اسلحہ کی اسمگلنگ میں بھی یہی لوگ شامل ہیں جس کے خلاف اسلام آباد کے آئی جی اکبر ناصر نے بہت ہی زبردست کام کیا۔ اسلحہ رکھنے والوں کیلئے باقاعدہ قوانین بنائے گئے اور نیا طریقہ کار واضع کیا گیا۔ غیر رجسٹرڈ اسلحہ ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاون، مکمل چیکنگ اور لائسنس یافتہ کی تربیت اسلام آباد پولیس نے ضروری قرار دی۔ اسلحہ لائسنس حاصل کرنیوالے کیلئے 3روزہ تربیت لازمی کی گئی کہ اس کا غلط استعمال روکا جا سکے مگر انتخابات کے بعد کیا ہو گا۔

میں نے یہی بات افواج پاکستان کی ایک بڑی شخصیت سے کہی کہ جمہوری حکومت آنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ پھر سےسارے مافیاز سر گرم ہو جائیں گے۔ یہ سارا کچھ جو پچھلے کچھ عرصہ میں کیا گیا ہے۔ ختم ہو جائے گا۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے ہزاروں کلاشن کوف کےلائسنس جاری ہونگے۔ یہ کوئی نہیں پوچھے گا کہ یہ کلاشن کوف آئی کہاں سے ہے۔ شوگر ملوں سے چینی پھر اڑ اڑ کر ملک سے باہر پہنچے گی۔ پھر ڈالر وں بھرےکنٹینر سرحد کے پار جانے لگیں گے اور اس میں اتنے بڑے بڑے حکومتی عہدہ دار شامل ہونگے کہ کوئی کچھ کر ہی نہیں سکے گا۔ جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ یہ غیر قانونی دھندے دہشت گری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتےرہے اور ملک کی سلامتی دائو پر لگتی رہی۔ یعنی پھر ملک کی سیکورٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ مجھے اس کا جو اب جو ملا وہ میں حرف بحرف واوین میں درج کررہا ہوں۔

’’اس بات کا انتظار کرنے والے یہ بھول جائیں کہ نگراں حکومت کے خاتمے کے بعد اس کے پیچھے موجود اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ جائے گی۔ سیاسی حکومت ہو گی۔ چاہے جس کی بھی ہو۔ وہ اپنا دھندہ پھر سے شروع کر لیں گےتو ان کی خام خیالی ہے۔ اب ایسا سوچنے اور سمجھنے والوں پرہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ افواج پاکستان اس معاملے میں کسی طور پر بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ جو مرضی ہو جائے۔ باقی سارےکام سیاسی حکومت کرے۔ معیشت سنبھالے، فارن پالیسی سنبھالے، سب کچھ سنبھالے لیکن اس چیز پر افواج پاکستان نے پچھلے کچھ مہینوں سے جو ہاتھ رکھا ہوا ہے وہ اٹھایا نہیں جائے گا۔ اس کے معاملے میں کسی طرح کا کوئی کمپرومائز نہیں ہو گا بلکہ جو اس وقت تک قانون کی گرفت سے بچے ہوئے ہیں وہ بھی قانون کی گرفت میں ہونگے۔ یہ معاملہ ملک کی سیکورٹی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ملک کی سیکورٹی فوج کی ذمہ داری ہے‘‘۔

مجھے لگتا ہے کہ آنے والی حکومت کیلئے اس کا عرصہِ حکومت آسان نہیں ہو گا۔ اس حکومت کے ہر عمل کی اسٹیبلشمنٹ پوری طرح نگرانی کرے گی کیونکہ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ پاکستان کو کچھ اور برباد کیا جا سکے۔ پاکستانی معیشت کی تباہ حالی، مہنگائی کی انتہائی سطح کا اصل سبب وائٹ کالر کرائمز ہیں جس میں اربوں روپے کی ہیرا پھیری ہوتی ہے اور اس میں حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں ملوث ہوتی ہیں۔ وہ جو کھربوں روپے کا قرضہ لیا گیا ہے، وہ کہاں گیا۔ غریب لوگوں تک تو نہیں پہنچا۔ انہی مافیاز کے ہاتھ میں آیا پھر ہوا ہو گیا۔ ایک ستم کی بات اور بھی ہے کہ پاکستان کے بڑے سیاست دان کاروباری لوگ ہیں۔ اب شوگر ملوں کی بات کریں تو وہ کئی سیاست دانوں کی بھی ہیں۔ یقیناً شوگر فیکٹریوں سے متعلق بنائی جانے والی کسی بھی پالیسی سے وہ کیسے دور رہ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں جب تک کاروباری لوگ پاکستان میں حکومتیں بناتے رہیں گے۔ ملکی استحکام میں مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button