مظلوم فلسطینی بھائیوں کے حق میں کیسے مؤثر آواز اٹھائیں؟

ایک شخص ایک بستی کے پاس سے گزررہا تھا، کتے اس کے پیچھے پڑ گئے، اس نے کتوں کو بھگانے کے لیے زمین سے پتھر اُٹھانے کی کوشش کی تو زمین کے یخ بستہ ہونے کی وجہ سے وہ شخص پتھر زمین سے اُٹھا نہ سکا، تو کہنے لگا کہ: بستی کے لوگ کتنے ظالم ہیں! کتوں کو چھوڑ رکھا ہے اور پتھروں کو باندھ رکھا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی مظالم کو اس کہاوت کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنے فلسطینی بھائیوں کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے بھی مدد کرنے سے کس قدر مجبور ہیں۔

فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم آخری حدوں کو کراس کر چکے ہیں اب انتہا پسند اوزما یہودیت پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیر نے کہا ہے کہ غزہ جنگ جیتنے کے لیے اسرائیلی فوج کے پاس کئی آپشنز ہیں جن میں آخری اور حتمی اقدام ایٹم بم گرانا ہے۔ ایسی صورتحال میں مسلمان چاہ کر بھی فلسطینیوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں، ظالم کا ہاتھ روکنا تو درکنار ہم انسانی بنیادوں پر غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے مغربی دنیا سے اجازت کے محتاج ہیں۔

انٹرنیشنل لا دو ملکوں کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے مسلمان ملکوں کو پابند بناتا ہے مگر دو باتیں ملحوظ رہنی چاہیئں ایک یہ کہ مغربی ممالک نے کب انٹرنیشنل لا کا خیال رکھا ہے، دوسرا یہ کہ انٹرنیشنل لا بھی انسانوں کا بنایا ہوا ہے طاقتور قوتیں جب چاہتی ہیں اسے پاؤں تلے روند ڈالتی ہیں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ آزادی رائے اور انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی دنیا کے اصول اپنے مفاد تک محدود ہیں جو بالعموم مسلمانوں کے حقوق مجروح ہونے پر بیدار نہیں ہوتے۔

نہتے فلسطینیوں کے لئے اس وقت غزہ کی زمین تنگ کر دی گئی ہے، اسرائیل تمام جنگی اصولوں کو پامال کر رہا ہے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے ایسے میں ہمارے کچھ دوست سوشل میڈیا پر اسرائیلی مظالم پر لکھ رہے ہیں تو ان کے اکاؤنٹس کو بلاک کیا جا رہا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد کو کھلی آنکھوں دیکھیں اور اس پر خاموش رہیں۔

سوال یہ ہے ہم اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کیلئے کیسے مؤثر آواز اٹھائیں؟ تین طریقے کارگر ثابت ہو سکتے ہیں جن سے آپ لاکھوں کروڑوں لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں۔

پہلا طریقہ: فیس بک پر اپنی صلاحتیں ضائع کرنے کی بجائے ویب سائٹس پر لکھیں اور اس کا لنک آگے کئی جگہوں پر شیئر کریں۔ اس لئے کہ ویب سائٹس پر فیس بک جیسی کی پابندیاں نہیں ہیں۔

دوسرا طریقہ: ویڈیو ڈاکومنٹری بنائیں جس میں تاریخی حوالہ جات سے مسئلے کو بیان کریں، جذبات پر قابو رکھیں، غیر شائستہ اور حتی الامکان گالی سے گریز کریں۔ اس لنگ کو ویب سائٹ اور دیگر کئی فورم پر شیئر کریں۔ کئ مخلص لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ فلسطینیوں کے حق میں آواز کیلئے وہ کئی اکاؤنٹس قربان کر سکتے ہیں، ہماری رائے میں یہ سوچ درست نہیں ہے اگر آپ کی آواز مؤثر ہے تو بلاوجہ کی بہادری کر کے مستقل خاموش رہنے کی بجائے اپنی آواز کو بچا کر رکھیں تاکہ مناسب فورم پر آپ کو آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہو۔

تیسرا طریقہ: ایک فورم پر آپ کی آواز بند کی جاتی ہے تو دوسرے فورم پر آواز بلند کرتے رہیں۔ یعنی اگر فیس بک اکاؤنٹ بند ہوتا ہے تو واٹس ایپ چینل کا فورم استعمال کریں۔ آپ مذکورہ طریقہ کار پر عمل کریں گے تو گوگل ایسی تحریروں کو ڈیلیٹ نہیں کرے گا، یہ تحقیق کے زمرے میں آتا ہے اور آپ کی تحاریر یا ویڈیوز برسوں تک گوگل سرچ میں آتی رہیں گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ظفر سلطان

ظفر سلطان پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انہیں حالات حاضرہ اور سماجی موضوعات پر لکھنے میں دلچسپی ہے۔ ٹوئیٹر پر انہیں یہاں @zafarsultanpk فالو کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button