مسئلہ فلسطین اور یہودی ریاست کی بنیاد
دنیا کے تین بڑے مذاہب یہودی ازم، عیسائی اور مسلمان تینوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے جاری ہوئے جنہیں "ابراہیمی مذاہب” بھی کہا جاتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر نبی تھے آپ کو اللہ نے عرب کی زمین تحفے میں عطا کی اور آپ علیہ السلام کے ہاں دو بیٹے ہوئے اور دونوں ہی اللہ کے نبی قرار پائے، جن میں چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام آپ کی پہلی بیوی حضرت سارہ علیہا السلام کے بطن سے پیدا ہوئے اور بعد میں ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام بھی اللہ کے نبی قرار پائے اور آپ کا لقب "اسرائیل” قرار پایا، یہاں پر یہ بات بھی باور کروانا چاہوں گا کہ چوں کہ اسرائیل اللہ کے نبی حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے لہذا اسے زمین پر لکھ کر اوپر پاؤں رکھنا میری رائے میں برا عمل ہے۔
خیر حضرت یعقوب علیہ السلام کے ہاں چھہ بیویوں ہوئیں جن میں سے ہر ایک سے دو یعنی کل بارہ بیٹے پیدا ہوئے جن میں سے پہلی بیوی سے لاوی اور یہودا پیدا ہوئے اور آخری بیوی سے حضرت یوسف علیہ السلام جو بعد میں اللہ کے نبی مقرر ہوئے اور بنیامین پیدا ہوئے۔ یہودہ وہ ظالم اور سفاک شخص تھا جو اپنے چھوٹے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کو شکار کے بہانے ساتھ لے گیا اور قتل کی غرض سے کنویں میں پھنک دیا تاکہ اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے بعد نبوت کا وارث بن سکے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو محفوظ رکھا اور ظالم یہودہ نے یوسف علیہ السلام کا کرتہ جس پر بھیڑ کا خون لگایا تھا اپنے والد کو دکھایا کہ انہیں شکار کے دوران بھیڑیے نے کھا لیا ہے، لیکن جب حضرت یعقوب علیہ السلام کرتے کا مشاہدہ کیا تو وہ کہیں سے بھی پھٹا ہوا نہیں تھا۔
جس سے یہ ظاہر ہو گیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ظالم بڑے بھائی نے قتل کر دیا ہے اور اس ظلم پر اللہ کے نبی علیہ السلام اتنا روئے کہ آپ کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی، اور یوں یہودی ازم کی بنیاد پڑی اور چالیس سال بعد اللہ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی یوسف علیہ السلام سے ملاقات کروا دی اور آپ کی بینائی بھی لوٹ آئی اور یوں یہ نبوت کا سلسلہ چلتا رہا اور کئی انبیأ کرام یکے بعد دیگرے تشریف لاتے رہے۔
جن میں موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام داؤد علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، یہاں پر یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے چرند پرند سے لے کر ہوا اور جنات پر بھی بادشاہی بخشی تھی اور جنات کی مدد سے ہیکل سلیمانی بنایا جس کے اوپر آج قبلہ اول یعنی مسجد اقصیٰ موجود ہے اور یوں یہ سلسلہ نبوت چلتا رہا اور جناب عمران علیہ السلام کے ہاں بیٹی حضرت مریم علیہا السلام پیدا ہوئیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ نےکو بغیر والد کے فرذند عطا کیا اور بے شک وہ قادر مطلق ہے، اور مریم علیہا السلام کے بیٹے حضرت عیٰسی علیہ السلام نبوت کے بلند درجے پر فائز ہوئے اور صاحب کتاب مقرر ہوئے اور یوں عیسائی مذہب کی بنیاد پڑی لیکن ظالم یہودیوں نے ان کا انکار کیا اور قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے آپ کے جسم مبارک کو آسمان پر اٹھا لیا جس کی بدولت عیسائی بھی گمراہ ہو گئے کہ معاذ اللہ عیسیٰ روح اللہ، اللہ کے بیٹے ہیں نعوذ باللہ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام بی بی حاجرہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے، جنہیں آپ علیہ السلام نے سر زمین مکہ شریف میں آباد کیا اور خانہ کعبہ کی بناد رکھی، جن کی اولاد سے سید الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یوں مسلم مذہب کی بناد پڑی۔
اب آتے ہیں بنیادی سوال کی جانب۔ عرب اسرائیل جھگڑا خالصتاً مذہبی جھگڑا ہے۔ عیسائی مذہب کی پیشن گوئی کے مطابق "مسیحا” یعنی عیسیٰ علیہ السلام واپس آئیں گے اور پوری دنیا میں عیسائی مذہب کو رائج کریں گے، اور ان کی آمد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسرائیلی ریاست کا مذہبی بنیادوں پر قیام نہیں ہو جاتا۔ اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ چونکہ وہ اللہ کی سب سے زیادہ پسندیدہ قوم ہیں اور بیت المقدس میں کئی اسرائیلی انبیا کا نزول ہوا ہے لہذا وہ یہاں ہی آباد ہو کر مسیحا کا انتظار کریں گے جو کہ انہی میں سے ہو گا اور وہ آکر یہودی مذہب کو تمام دنیا میں رائج کرے گا۔
یہاں پر ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیلی یا یہودی دنیا کا واحد مذہپ ہے جو اپنی مرضی سے اختیار نہیں کیا سکتا کیونکہ ان کے عقائد کے مطابق انسان کو پاک ہونے کیلئے 24 جنم لگتے ہیں اور اس شرط کو مسیحا آ کر ختم کریں گے، یعنی اسرائیلی صرف پیدائشی بناد پر ہی اپنے مذہب کا انتخاب کر سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس مذہب کے پیروکاروں کی تعداد بہت کم ہے۔
مسلم عقائد کے مطابق جوں ہی کوئی شخص اللہ کی وحدانیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتا ہے تو وہ پاک ہو جاتا ہے اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور مسمانوں کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام آئیں گے اور اس کے ساتھ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ظہور پذیر ہوں گے اور امام مہدی علیہ السلام کی امامت میں بطور مقتدی نماز بجا لائیں گے، اور پوری دنیا میں ظالم یہودی مارے جائیں گے اور تمام دنیا میں اسلام بطور مذہب رائج ہو جاہے گا۔
یاد رہے امام مہدی علیہ السلام جو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے بارویں نمبر پر امامت کے درجے پر فائز ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اس وجہ سے اٹھا لیا تھا کہ جس طرح یہودیوں نے یکے بعد دیگرے ابنے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے آئے تھے اسی طرح امت مسلمہ کے اندر انہوں نے داخل امامین علیہ السلام کو یگے بعد دیگرے شہید کرنے کا عمل شروع رکھا اور گیارہ اماموں کو ناحق شہید کر دیا اور امام مہدی علیہ السلام جب امامت کے مقام پر فائز ہوئے تو یہ ظالم یہودی آپ کو قتل کرنے کی غرض سے آئے تو رب العزت نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھایا تھا۔ شیعہ مسلمان ہر نماز کے بعد امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی دعا کرتے ہیں۔