موبائل فون کی سکرین سیکھنے کا نیا میدان

انسانی زندگی پر ہر اس چیز کا گہرا اثر ہوتا ہے جو اس کے قریب ترین ہوتی ہے، آپ نرم مزاج لوگوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیں چند دنوں بعد آپ بھی نرم طبع کہلانے لگیں گے، ایسے ہی سخت گیر لوگوں کے ساتھ رہنے سے سخت مزاج۔ غرض انسان سب سے زیادہ اپنے آس پاس کے ماحول اور قریبی لوگوں سے سیکھتا ہے، سیکھنے کا عمل کبھی یکساں نہیں رہتا بلکہ ہر دور میں تبدیل ہوتا رہتا ہے، اس لئے سیکھنے کے اصول بھی زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے۔ موجودہ دور میں موبائل کی سکرین انسان کا سب سے قریبی ترین رفیق اور سیکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔ گھروں، نجی محفلوں سے لے کر دفاتر اور بازاروں میں اکثر لوگ موبائل کی سکرین پر نگاہیں گاڑے دکھائی دیتے ہیں، حتیٰ کہ بچے اور خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں سمارٹ فون کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں، جو لوگ سمارٹ فون کے دور میں قدیم دور کے بٹنوں والے موبائل استعمال کریں گے وہ بہت سی مثبت چیزوں سے محروم رہ جائیں گے، جدید ٹیکنالوجی کو ایڈوب کر کے فائدہ اٹھانا ہی بہترین راستہ ہے۔

اکثر لوگ سیکھنے کی فکر سے بے نیاز ہو کر موبائل کا استعمال کرتے ہیں اور سکرولنگ کرتے ہوئے جو سامنے آئے وہ دیکھ کر اگلی ویڈیو کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ اس دوران انٹرنیٹ کا خود کار نظام ایکٹو ہوتا ہے اور انسان کو جن ویڈیوز میں دلچسپی ہوتی ہے وہی ویڈیوز تسلسل کے ساتھ سامنے آنے لگتی ہیں۔ موبائل فون کی سکرین نے لوگوں کو محفوظ مواقع بھی فراہم کر دیئے ہیں، اس لئے تنہائی کے لمحات میں بے خوف ہو کر وہ سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے جو دوسرے لوگوں کی موجودگی میں بالعموم دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

موبائل فون سکرین نے سیکھنے کے نئے مواقع پیدا کئے ہیں، چند برس پہلے تک جن کتابوں، لائبریریوں، کورسز یا شخصیات تک رسائی کا تصور کیا جا سکتا تھا انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کی بدولت اب ان تک رسائی نہایت آسان ہو چکی ہے بس آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سمارٹ فون سے دینی اور دنیاوی معاملات میں یکساں طور پر رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ دو مثالوں سے بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔

آپ کسی دینی معاملے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، کسی عالم دین یا دارالافتا تک رسائی نہیں ہے کہ وہاں سے رہنمائی حاصل کی جا سکے تو سمارٹ فون کے ذریعے گوگل پر سرچ کریں، ٹاپ لسٹ میں کئی مستند عالم دین اور دارالافتاء کی آرا آپ کے سامنے آ جائیں گی، ان میں سے ایک دو کا مطالعہ کرنے سے آپ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

اسی طرح عصری علوم یا ٹیکنالوجی بارے آپ کسی کنفیوژن کا شکار ہیں اور ماہر سے رائے لینا مشکل ہے یا مسئلہ فوری حل طلب ہے اور ماہر سے رابطہ ممکن نہیں ہے تو آپ گوگل یا یوٹیوب پر اپنا موضوع سرچ کریں آپ کے پاس کئی آپشنز آ جائیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انٹرنیٹ اور سمارٹ فون نے سیکھنے کے نئے مواقع پیدا کئے ہیں جن کا پہلے تصور ہی کیا جا سکتا تھا۔

اب اگلا سوال یہ ہے کہ آپ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سکرین سے کیا سیکھتے ہیں؟ انٹرنیٹ پر زیادہ تر بے مقصد اور خرافات پر مبنی مواد موجود ہے، شاید اسی بنا پر انٹرنیٹ کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے، لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ ٹیکنالوجی کی دنیا میں انٹرنیٹ کے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے۔ اس کی سادہ سی مثال حج اور عمرہ جیسی عبادت ہے جو انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ہے۔ سو بے مہار انٹرنیٹ کی لگام آپ نے اپنے ہاتھ میں رکھنی ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ یہ طے کر لیں گے کہ آپ نے خود بھی انٹرنیٹ سے سیکھنا ہے اور جہاں تک ممکن ہو سکے معاشرے کی اصلاح میں بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

سکرین کے دور میں طویل تحریریں پڑھنے کا کوئی تکلف نہیں کرتا، سو تحریر کے میدان سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے، سماجی مسائل کو سمجھنے والے لوگوں کی اکثریت ویڈیو کی طرف آنا ہی نہیں چاہتی، لے دے کر جو کنٹینٹ ہمیں سکرین پر دیکھنے کو ملتا ہے وہ یا تو نہایت بے ہودہ ہوتا ہے یا پھر بے تُکا جس کا سر نہ پیر۔ لیکن حیرت ہے ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر ایسا ہی بے کار کنٹینٹ پسند بھی کیا جاتا ہے اگر لوگ بے مقصد کنٹنیٹ کو پسند کرتے ہیں تو یہ سماج کی فکری پستی کی علامت ہے۔

محتاط اندازے کے مطابق ایک انسان یومیہ تین سے چار گھنٹہ موبائل کی سکرین پر گزارتا ہے، ایک دن کے تین سے چار گھنٹے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس دوران ڈیجیٹل سکلز میں اضافہ کر کے ہزاروں روپے یومیہ کما سکتے ہیں، سکلز نہیں ہیں تو آپ کسی کی رہنمائی سے روزانہ دو گھنٹے لگا کر کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں جو مستقبل میں آپ کی آمدن میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، تاہم ان تمام تر فوائد کے برعکس موبائل فون صارفین کی اکثریت ایسی ویڈیوز دیکھنے میں مگن ہوتی ہے جو وقتی انٹرٹینمنٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے یہ تب خطرناک ہو جاتا ہے جب بے مقصد ویڈیوز دیکھنا آپ کی عادت بن جاتا ہے، کچھ لوگ بستر پر جانے سے پہلے یا بستر پر لیٹے موبائل سکرین میں گھنٹوں مصروف رہتے ہیں ایسے لوگوں کی نیند شدید متاثر ہوتی ہے کیونکہ انٹرنیٹ ایک ایسی چیز ہے جس پر وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے اور ہر دوسری ویڈیو پہلی سے زیادہ دلچسپ دکھائی دیتی ہے۔

مغربی معاشرے پر آپ لاکھ تنقید کریں، وہاں جنسی معاملات کو چھوڑ کر جو کنٹینٹ دکھایا جاتا ہے وہ بامقصد اور سماج سے متعلق ہوتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی سبق ہوتا ہے جس سے سیکھنے کے مواقع میسر آتے ہیں، اسی طرح بھارت میں دیکھ لیں وہ بھی سماجی مسائل پر چھوٹے چھوٹے ویڈیو کلپس بنا کر سیکھنے کے مواقع میسر کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں بے کار کنٹینٹ کی بھر مار ہے، بچوں کو موبائل سکرین سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے لیکن یہ تکلف نہیں کیا جاتا کہ بچوں کی ضرورت اور مزاج کو سامنے رکھ کر کنٹینٹ بنایا جائے، بچوں کے کارٹون تک ہم نہیں بنا سکے، موٹو پتلو اور انگریزی کارٹون بچوں کے پسندیدہ کیوں ہیں اس لئے کہ وہ بچوں کیلئے تخلیق کئے گئے ہیں، ترکیہ نے چند سال پہلے مسلمان بچوں کیلئے ’’جان‘‘ کے نام سے کارٹون بنائے تھے، سوچا کہ بچوں کی پسند کا مواد اب کسی حد تک میسر ہو گیا ہے مگر اب وہ بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

سکرین کے دور میں ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ٹیکنالوجی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں، بلکہ ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کریں اس سے کچھ سیکھیں اور اپنی آمدن میں اضافہ کریں، یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب آپ یہ طے کرلیں کہ روزانہ آپ نے کتنی دیر اور کس مقصد کیلئے فون کا استعمال کرنا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت دنیا نے ٹیکنالوجی کی بدولت ترقی حاصل کی ہے، اگر ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہم نہیں سیکھتے ہیں تو ہماری مثال ان چینیوں جیسی ہو گی جو افیون کے نشے میں مبتلا ہو کر گھر، خاندان اور قوم کیلئے بوجھ بن گئے تھے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ظفر سلطان

ظفر سلطان پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انہیں حالات حاضرہ اور سماجی موضوعات پر لکھنے میں دلچسپی ہے۔ ٹوئیٹر پر انہیں یہاں @zafarsultanpk فالو کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button