اقتصادی ترقی میں قوموں کے تعمیری مزاج کی اہمیت
گجرات کی ایک مسلم برادری ہے جس کانام میمن برادری ہے۔عام طور پر اس کو چلیا برادری کہا جاتا ہے۔یہ ایک تجارت پیشہ برادری ہے۔ان کے افراد مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں،بمبئی میں یہ برادری تقریباً25ہزار کی تعداد میں آباد ہے۔
تجارت سے آدمی کے اندر ایک مخصوص کردار پیدا ہوتا ہے۔یہ کردار اس برادری میں پوری طرح موجود ہے۔مثلاً وہ ملازمت کرنے کے بجائے اپنی محنت سے کمانا پسند کرتے ہیں۔ان کی زندگی نہایت سادہ ہوتی ہے،حتیٰ کہ شادیوں میں ان کے یہاں جہیز کا کوئی رواج نہیں۔ وہ سیاسی جھگڑوں سے بالکل دور رہتے ہیں۔ان کے درمیان باہمی اختلاف دوسرے مسلمانوں کی نسبت بہت کم پیدا ہوتے ہیں اور اگر کوئی باہمی اختلاف پیدا ہو جائے تو وہ اپنے بڑوں کے فیصلہ پر راضی ہو کر اختلاف ختم کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے اختلافی معاملات کے لئے کبھی عدالت میں نہیں جاتے۔
چلیا برادری کے اس مزاج کی وجہ سے اس کو دینی فائدہ بھی مل رہا ہے اور دنیوی فائدہ بھی۔ اس کے مزاج کی سادگی، حقیقت پسندی، بات کو مان لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ تبلیغی تحریک کو اس نے بہت جلد قبول کر لیا۔ تبلیغ میں شامل ہونے سے مزید ان کے اندر اعتماد اور یقین کی نفسیات پیدا ہوئی۔ وہ ترقی کی راہ میں آگے بڑھتے چلے گئے۔
چلیا برادری کی مذکورہ نفسیات کا دوسرا زبردست فائدہ انہیں اتحاد کی صورت میں ملا۔ اس برادری کے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ بہت جلد تجارتی شرکت کو قبول کر لیتے ہیں۔ ان کی اکثر تجارتیں آپس کی مشترک سرمایہ سے چل رہی ہیں۔ ان کا ایک آدمی کہے گا کہ فلاں ہوٹل دس لاکھ روپے میں بک رہا ہے۔ آئو ہم مل کر اس کو خرید لیں۔اس کو نہایت آسانی سے سرمایہ لگانے والے افراد مل جائیں گے اور وہ مشترک سرمایہ سے ہوٹل کو خرید کر اس کو منظم انداز سے چلاتے رہیں گے اور ان کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں پیدا ہوگا۔
موجودہ زمانہ میں کوئی بڑا کام کرنے کیلئے بڑے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ سرمایہ عام طور پر بینک فراہم کرتے ہیں۔ اسلام میں چونکہ سود کو حرام قرار دیا گیا ہے اس لئے بہت سے’’ ترقی پسند‘‘ یہ کہتے ہیں کہ اسلام اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے کیونکہ اقتصادی ترقی بینک کے سودی قرضوں سے ہوتی ہے اور سودی قرضہ پر کاروبار کرنے کی اسلام میں گنجائش نہیں۔
بمبئی کی چلیا برادری اس الزام کی عملی تردید ہے۔چلیا برادری کا نمونہ بتاتا ہے کہ اقتصادی عمل کے لئے سودی مالیات لازمی نہیں۔یہاں سودی مالیات کا ایک بدل موجود ہے اور وہ ہے مشارکتی مالیات۔ یعنی حصہ داری کی بنیاد پر مشترک سرمایہ فراہم کرنا اور اس کے ذریعہ سے کئی آدمیوں کا مل کر کاروبار کرنا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانہ میں کو آپریٹو سسٹم کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کو آپریٹو نظام سودی نظام کا اسلامی بدل ہے۔ مگر کو آپریٹو نظام کے تحت اقتصادی عمل جاری کرنے کے لئے ایک لازمی شرط ہے اور وہ ہے اتحاد کا مزاج۔چلیا برادری میں یہ مزاج پوری طرح پایا جاتا ہے اس لئے ان کے درمیان تجارتی مشارکت کامیاب ہے۔ عام مسلمانوں میں یہ مزاج موجود نہیں، اس لئے ان کے یہاں تجارتی مشارکت بھی نہیں پائی جاتی۔
اتحاد و اتفاق ایک ایسی چیز ہے جو ہر اعتبار سے مفید ہے،دین کے اعتبار سے بھی اور دنیا کے اعتبار سے بھی۔مگر یہی وہ سب سے قیمتی چیز ہے جو آج مسلمانوں میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔
زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت قومی مزاج کی ہوتی ہے۔ قوم کے اندر اگر تعمیری مزاج ہو تو اس کا ہر معاملہ اپنے آپ درست ہوتا چلا جائے گا۔ اس کے اندر وہی قیادت ابھرے گی جو واقعتاً صحیح قیادت ہو۔غیر صالح قیادت کے اندر اپنی زمین نہ پا سکے گی۔ اس کے افراد کسی مفید کام کیلئے نہایت آسانی سے متحد ہو جائیں گے۔ دوسری قوموں سے اس کا غیر ضروری ٹکرائو اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ قوم مزاج کے صالح ہونے پر ہی قوم کی تمام ترقیوں کا انحصار ہے اور اگر قوم کا مزاج بگڑا ہوا ہو تو ایسی قوم کو کوئی چیز بربادی سے نہیں بچا سکتی۔ اگر آپ کو قوم کی اصلاح کرنی ہو تو اس کے مزاج کی اصلاح کر دیجئے۔اس کے بعد تمام چیزوں کی اصلاح اپنے آپ ہو جائے گی۔