پاکستان جی 20 ممالک کی دوڑ میں پیچھے کیوں؟

گروپ آف 20 (G-20) دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں کی ایک مشترکہ بین الاقوامی تنظیم ہے. اس تنظیم میں شامل ممالک سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں دنیا کی سب سے بڑی 20 معیشتیں رکھنے والے ممالک شامل ہیں، جن کا تعلق بہ راہ راست دنیا کی 85 فیصد معیشت کے ساتھ ہے اور جن کے پاس دنیا کی 75 فیصد تجارت ہے، جس سے ان کی طاقت اور اثر و رسوخ کا پتہ چلتا ہے۔

اس میں مندرجہ ذیل ممالک شامل ہیں: امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، اسٹریلیا، کینیڈا، بھارت، روس، سعودی عرب، انڈونیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، جنوبی افریقہ، ترکی، ارجنٹائن، برازیل اور یورپی یونین۔

یہ تنظیم باقاعدہ طور پر 1997 میں قائم ہوئی تھی، تب اس میں ہر ممبر ملک کے سنٹرل بینک (سٹیٹ بینک) کے گورنر اور وزیر خزانہ شامل تھے۔ 2008 میں اس کے ڈھانچے میں تبدیلی کر دی گئی، اب اس تنظیم میں شامل ممالک کے سربراہان اس کے ممبران ہیں، یوں اسے سربراہی تنظیم میں تبدیل کر دیا گیا۔

اس تنظیم کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ نہ تو کوئی اس کا مستقل دفتر یا صدر دفتر ہے، نہ ہی اس کا مستقل کوئی عملہ ہے اور نہ ہی اس کی سربراہی یا صدارت مستقل طور پر کسی ایک ملک کے پاس ہے۔ بلکہ اس کے ہر رکن ملک کے پاس ایک سال کے لیے اس کی صدارت رہتی ہے اور وہی ملک اپنی میزبانی میں اس کا سالانہ اجلاس منعقد کرتا ہے، جو سال میں صرف ایک ہی بار منعقد ہوتا ہے۔

اگرچہ اس تنظیم کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں، چیلنجز اور مسائل پر غور کرنا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترقی، زراعت، توانائی ماحولیاتی تبدیلی، اور بدعنوانی جیسے موضوعات بھی زیر غور آتے ہیں۔ جس سال جس ملک کے پاس اس کی صدارت ہوتی ہے، وہی اس کے سالانہ اجلاس کی میزبانی کے انتظامات بھی کرتا ہے۔

سالانہ اجلاس کے ایجنڈے کے مختلف نکات ہوتے ہیں، جن پر شرکائے اجلاس اظہار خیال کرتے اور اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں، اجلاس کا سب سے اہم مرحلہ اختتامی مرحلہ ہوتا ہے۔ چونکہ اس تنظیم میں باہم منقسم اور مختلف الخیال ممالک بھی شامل ہیں، اسی لیے حتمی اعلامیہ پر تمام ممالک میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی صدر (میزبان ملک) کی ہوتی ہے۔ گو کہ جاری ہونے والے اعلامیہ کی پابندی کے لیے کوئی قانون نہیں، تاہم اکثر ممالک اعلامیہ کی پابندی کرتے ہیں۔

اس اجلاس میں تنظیم میں شامل ممالک کے سربراہان کی سائیڈ لائن پر ملاقاتیں اور باہمی تبادلہ خیالات بھی ہوتا ہے اور ملکوں کی سطح پر بھی اور تنظیم کی سطح پر بھی دور رس نتائج کے حامل معاشی اور اقتصادی معاہدے طے پاتے ہیں۔

چونکہ اس سال کی صدارت انڈیا کے پاس تھی، اس لیے اس سال ہونے والا سالانہ اجلاس انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے جاری ہونے والے اعلامیے، طے پانے والے معاہدوں اور ان کے نتائج اور مضمرات کی طرف جائے بغیر ایک پاکستانی ہونے کے ناطے چند باتیں مسلسل ذہن پر دستک دے رہی ہیں۔

ایک ہی دن آزاد ہونے والے انڈیا اور پاکستان میں سے اول الذکر G-20 جیسی بڑی طاقت ور معاشی تنظیم کا حصہ ہے، جبکہ مؤخر الذکر کے حالیہ چند سالوں کی معاشی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس تنظیم میں شمولیت کا فی الوقت گمان تک نہیں کیا جا سکتا۔

ہماری اس سے زیادہ بے توقیری کیا ہو گی کہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا جس وقت G-20 جیسی بین الاقوامی معاشی تنظیم کے سالانہ اجلاس کی میزبانی اور صدارت کر رہا تھا، عین اس وقت ہماری ساری توانائی ڈالر کو مارکیٹ کی قیمت کے برابر لانے میں لگ رہی تھی۔ انڈیا اس وقت دنیا کی ساتویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور ہم ابھی تک 23 ویں نمبر پر ہیں۔

کیا ہماری معاشی تنزلی کی وجہ حکومت کے لیے باریاں لیتے کرپٹ سیاست دان ہیں؟

کیا اس کی وجہ ہواؤں کا رخ دیکھ کر فیصلے کرنے والی عدلیہ ہے؟

کیا اس گراوٹ کا باعث طاقت ور جاگیر دار مافیا ہے؟

کیا اس کے ذمہ دار مقتدر حلقے ہیں؟

کون اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر کے ذمہ داری قبول کرے گا اور کون اس نظام کی اصلاح کرے گا؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ذوالقرنین عباسی

مولانا ذوالقرنین عباسی مذہبی سکالر ہیں، انہیں مذہبی اور سماجی موضوعات پر لکھنا پسند ہے، گزشہ کئی برسوں سے ان کی تحریریں پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر شائع ہو رہی ہیں۔
Back to top button