معاشی اصلاحات کیلئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اقدامات
معاشی اصلاحات کیلئے سول وعسکری قیادت نے جو مشترکہ اقدامات اٹھائے ہیں اس کی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، یہ پالیسی وقتی نہیں ہونی چاہئے
سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کے خلاف ریاستی ادارے متحرک ہوئے ہیں، کریک ڈاؤن سے محض ایک ہفتے کے دوران ڈالر اوپن مارکیٹ میں 35 روپے سے زائد کم ہوا ہے ڈالر کی گراوٹ کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈالر کی مارکیٹ ویلیو 250 روپے بنتی ہے۔ مطلب یہ کہ ہم مہنگائی کا جو رونا روتے رہے ہیں اس کے عوامل اور ذمہ دار ہماری صفوں میں موجود تھے، ڈالر کو ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا گیا، حیرت تو اس بات پر ہے کہ سمگلنگ میں ملوث لوگوں کو سرکاری افسران کی مکمل سرپرستی حاصل تھی، اس مکروہ دھندے میں کون کون ملوث تھا، آئی بی کی رپورٹ نے سارے حقائق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کو پیش کر دیئے ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بدعنوانی کو کنڑول کرنے والے ادارے اور افسران ہی بدعنوانی میں ملوث پائے گئے ہیں ایسے افسران کے نام قوم کے سامنے آنے چاہئے تاکہ عوام بھی جان سکے کہ ان کے ٹیکسوں سے مراعات حاصل کر کے ملک و قوم کی پیٹھ کے پیچھے چھرا گھونپنے والے کون ہیں؟
پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبار میں ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، جب کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ملوث افسران، سیاست دانوں اور ڈیلروں کی تفصیلات وزیر اعظم ہاؤس کو فراہم کر دی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں 76 ڈیلرز تیل سمگلنگ میں ملوث ہیں، ملک بھر میں 995 پمپ ایرانی تیل کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 90 سرکاری حکام، اور 29 سیاست دان بھی ملوث ہیں۔ اس غیر قانونی دھندہ میں جب سیاستدان اور سرکاری افسران ملوث ہیں تو عوام اپنے دکھوں کیلئے کس سے فریاد کریں؟
مافیا کے خلاف کارروائیوں کو آرمی چیف کے وژن سے تعبیر کیا جا رہا ہے، یہ مافیا ایک عرصہ سے سرگرم تھا مگر اس پر ہاتھ ڈالنا مشکل تھا وجہ یہ تھی کہ ان کے سرپرست ایوانوں میں موجود تھے آپ شوگر مافیا کو دیکھ لیں اس کاروبار سے منسلک افراد کی اکثریت سیاست سے وابستہ ہے اس لئے جب بھی شوگر مافیا کے گرد گھیرا تنگ ہوتا ہے تو یہ سیاستدان میدان میں آ جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر بڑے کاروبار کے پیچھے بڑی شخصیات موجود ہیں۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جب کراچی میں صنعتکاروں سے ملاقات کی تو کئی انکشافات سامنے آئے، چونکہ خصوصی سرمایہ کاری کے تحت تشکیل دی جانے والی سول و عسکری قیادت کونسل کا حصہ ہے اس لئے مافیا کے خلاف فوری کارروائی کا آغاز ہوا۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اجلاس میں ڈالر کی قیمت مارکیٹ کے برابر لانے کے لیے ہر ممکن کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایس آئی ایف سی اجلاس میں بتایا گیا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت اس وقت 250 روپے کے لگ بھگ ہے، عسکری قیادت کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت مارکیٹ ویلیو کے مطابق لانے تک ہنگامی بنیادوں پر کام کریں گے۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ روپے کی قیمت مارکیٹ کے مطابق لانے کے لیے ایف آئی اے، حساس ادارے، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک مل کر کارروائیاں کریں گے۔
یہ درست ہے کہ ہماری معیشت ڈالر سے جڑی ہوئی ہے ڈالر کی قیمت اوپر جانے سے نہ صرف مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہمارے بیرونی قرضے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ کرنسی ایکسچینج کمپنیاں ڈالر کی قیمت اوپر لے جانے میں ملوث تھیں، ایکسچینج کمپنیز میں سادہ لباس اہلکاروں کی تعیناتی کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ میں نمایاں کمی آئی ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آرمی چیف نے معیشت کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں اس کے دور رس نتائج موصول ہوں گے، عرب ممالک کو ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا آرمی چیف کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہو رہا ہے جن میں سعودی عرب 25 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات 25 ارب ڈالر جبکہ قطر اور کویت پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہیں، اگلے دو سے تین برسوں میں یہ سرمایہ کاری متوقع ہے اس اقدام کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم ماضی کی طرح مقروض نہیں ہوں گے بلکہ عرب سرمایہ کار پاکستان میں موجود معدنی ذخائر کو نکالنے میں معاونت فراہم کریں گے جس میں ان کا بھی حصہ ہو گا۔
ماضی میں اٹھائے جانے والے اقدامات اور حالیہ فیصلوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ماضی میں ہم کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ہو جاتے یا حکومت تبدیل ہونے سے قومی نوعیت کے منصوبے بھی پس پردہ چلے جاتے تھے جیسا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں سی پیک جیسے اہم منصوبے پر کام رک گیا تھا۔ اب ایسا نہیں ہو گا، حکومت کی تبدیلی سے قومی نوعیت کے منصوبوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اتحادی حکومت ختم ہو گئی مگر اس حکومت نے جو معاشی پالیسیاں سیٹ کی تھیں نگران حکومت اسے جاری رکھے ہوئے ہے، حتیٰ کہ آئی ایم ایف معاہدے کو پورا کرنا نہایت مشکل ہو گیا تھا کیونکہ مہنگی بجلی کی جو شرط آئی ایم ایف نے عائد کی تھی عوام اس کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاست بچانے کی بجائے ریاستی مفاد کو سامنے رکھ کر بظاہر غیر مقبول فیصلے کئے گئے ہیں۔
عام انتخابات کے نتیجے میں جس پارٹی کی بھی حکومت قائم ہوتی ہے معاشی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔ اگر چند برس تک یونہی معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشی مسائل حل نہ ہوں۔ جو کام برسوں پہلے کر لینا چاہئے تھا اگر یہ کام اب کیا جا رہا ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہئے اور امید کی جانی چاہئے کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے ترقی میں پیچھے نہیں رہے گا۔