سی پیک کے مقابلے میں نیا کوریڈور منصوبہ؟

دلی میں ہونے والے جی 20سربراہی اجلاس میں سی پیک کے مقابلے میں انڈیا،مشرق وسطیٰ، یورپ اکنامک کوریڈور کا اعلان کیا گیا ہے،اس پراجیکٹ کا مقصد انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کو ریل اور بندرگاہوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جوڑنا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی میں انڈیا اور سعودی عرب کی طرف سے یہ اہم پیش رفت ہوئی ہے، مستقبل میں اس کے وسیع اثرات ظاہر ہوں گے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انڈیا، مشرق وسطی اور یورپی ممالک کے درمیان یہ معاہدہ بنیادی طور پر ایک انفراسٹرکچر پراجیکٹ ہے۔اس کے تحت بندرگاہوں سے لے کر ریل نیٹ ورک تک سب کچھ تعمیر کیا جانا ہے۔

انڈیا اور یورپ میں ریل کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔لیکن اگر ہم مشرق وسطی پر نظر ڈالیں تو وہاں ریل نیٹ ورک اتنا بڑا نہیں ہے جس کی وجہ سے مال برداری بنیادی طور پر سڑک یا سمندری راستے سے ہوتی ہے۔ریلوے نیٹ ورک بچھانے کی صورت میں مشرق وسطی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سامان کی ترسیل آسان ہونے کا امکان ہے۔ یہ معاہدہ دنیا کو ایک نیا تجارتی راستہ فراہم کرے گا۔ اس سے سوئز نہر کے راستے پر انحصار کم ہو جائے گا۔ ایسے میں اگر اس راستے پر کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس سے بین الاقوامی تجارت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ متبادل راستہ دستیاب ہوگا۔

2021 میں ایک بہت بڑا مال بردار جہاز ایور گیون سویز نہر کے کنارے پھنس گیا تھا۔اس واقعے نے بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک بحران پیدا کر دیا جس کی وجہ سے اس خطے سے سامان کی آمدورفت میں ایک ہفتے کی تاخیر ہوئی تھی۔ اس وقت انڈیا یا اس کے آس پاس کے ممالک سے آنے والا سامان سویز نہر کے ذریعے بحیرہ روم تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد یہ یورپی ممالک تک پہنچتا ہے۔اس کے علاوہ امریکی براعظم میں واقع ممالک کو جانے والا سامان بھی بحیرہ روم کے راستے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتا ہے جس کے بعد یہ امریکہ، کینیڈا یا لاطینی امریکی ممالک تک پہنچتا ہے۔یوریشیا گروپ کے جنوبی ایشیا امور کے ماہر پرمیت پال چودھری کہتے ہیں: فی الحال، ممبئی سے یورپ جانے والے کنٹینرز سوئز نہر کے راستے یورپ پہنچتے ہیں۔

مستقبل میں یہ کنٹینرز دبئی سے اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ تک ٹرین کے ذریعے جا سکتے ہیں۔ (اس منصوبے کاایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ مستقبل میں اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان تجارتی اورسفارتی رابطے بھی قائم ہوں گے جواسرائیل کوتسلیم کرنے کی طرف اہم قدم ہوگا )امریکہ ،انڈیااوراسرائیل ایک عرصے سے اس کوشش میںتھے کہ کسی طرح چین کے بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کاتوڑکیاجائے انڈیانے چاہ بہاربندرگاہ کے حوالے سے ایران سے ایک معاہدہ بھی کیا مگراس سے ان ممالک کی مرادیں پوری نہیں ہوسکی تھیں کیوںکہ بیلٹ اور روڈ منصوبے کے ذریعے چین نے اپنے اثرورسوخ، سرمایہ کاری اور تجارت کو یورپ سے افریقہ تک اور ایشیا سے لاطینی امریکہ تک پھیلایا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین اس معاہدے کو چین کے بی آر آئی کے ایک مضبوط جواب کے طور پر دیکھتے ہیں۔کوگل مین نے ٹویٹرپرلکھا: اگر یہ ڈیل ہو جاتی ہے تو یہ ڈیل گیم چینجر ثابت ہوگی کیونکہ یہ انڈیا کو مشرق وسطی سے جوڑ دے گا اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو چیلنج کرے گا۔محمدبن سلمان اورمودی کی دوستی کی وجہ سے یہ منصوبہ سامنے آیاہے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر جو بائیڈن نے جب انڈیا میں منعقد ہونے والے جی 20 اجلاس کے سٹیج پر ایک دوسرے سے مصافحہ کیا تو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ان کا ہاتھ تھام لیا۔تینوں رہنمائوں کی ایک ساتھ یہ تصویر سفارت کاری کے دنیا میں موضوع بحث بن چکی ہے اور اس کے کئی معنی نکالے جا رہے ہیں۔

درحقیقت انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی قربت کئی عالمی فورمز پر نظر آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی نے سعودی عرب کے ساتھ قربت بڑھا کر پاکستان کو بھی سائیڈ لائن کرنے کی کافی حد تک کوشش کی ہے۔جہاں تک انڈیااورسعودی عرب کے درمیان تجارت کاتعلق ہے تو ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان سالانہ تجارت پانچ ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔

انڈیا نے سال 2022-23 میں تقریبا ایک ارب ڈالر کی برآمدات کیں اور سعودی عرب سے تقریبا چار ہزار ڈالر کی درآمد کی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں یہ تجارت دوگنی ہو گئی ہے۔سعودی عرب میں 700 سے زیادہ انڈین کمپنیاں کام کر رہی ہیں جنھوں نے تقریبا 200 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان میں ایل این ٹی، ٹاٹا، وپرو، ٹی سی ایس، شاپورجی جیسی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔انڈیا میں سعودی سرمایہ کاری کی بات کریں تو مارچ 2021 تک یہ 300 کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔ اس میں سعودی آرامکو، سبک، ای ہالیڈے جیسی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔یہی نہیں، سعودی عرب نے انڈین سٹارٹ اپس جیسے فرسٹ کری، گروفرس، اولا، اویو، پے ٹی ایم میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔

اس کے علاوہ سعودی عرب نیوم پروجیکٹ بنا رہا ہے، جس کا بجٹ 500 بلین ڈالر (تقریبا 37 لاکھ کروڑ روپے)ہے۔ اس کے لیے وہ انڈیا سے ٹیلنٹ اور سرمایہ کاری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انڈیا کی مدد سے وہاں ہائیڈروجن پلانٹ پر کام بھی شروع ہو گیا ہے۔اس منصوبے کے تحت سعودی عرب میں مستقبل میں ایکو سٹی قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس شہر میں ہر چیز ماحول دوست ہوگی۔ یہ خام تیل سے پاک سعودی عرب کے وژن 2030 کا حصہ ہے۔اس ایکو سٹی کو تیار کرنے والے ڈویلپرز کے مطابق یہ شہر 26,500 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہو گا اور یہاں سعودی عرب کا عدالتی نظام یہاں کام نہیں کرے گا، بلکہ اس منصوبے کے سرمایہ کار خود اس کے لیے ایک خود مختار قانونی نظام بنائیں گے۔

اس کے علاوہ مہاراشٹرا میں 4400 کروڑ امریکی ڈالر کے ویسٹ کوسٹ ریفائنری اینڈ پیٹرو کیمیکل پروجیکٹ کے قیام کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس میں سعودی عرب کی آرامکو، ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی اور انڈین آئل کارپوریشن شامل ہیں۔اس کے ساتھ تقریبا 24 ملین انڈین سعودی عرب میں رہتے ہیں، جو وہاں کی سب سے بڑی تارکین وطن کمیونٹی ہے ۔یوں دیکھا جائے تو انڈیا،مشرق وسطی،یورپ اکنامک کوریڈور صرف تجارتی منصوبہ ہی نہیں بلکہ ایک نیاعالمی اتحادہے جوپاکستان ،چین اورروس کے مقابل کھڑانظرآتاہے ۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 2013میں جب پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک )کا آغاز ہوا تو اسے ناکام بنانے کے لیے 2014میں عمران خان کو میدان میں اتارا گیا۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ عمران نیازی کے پیچھے کون سی قوتیں تھیں جو اس منصوبے کو کامیاب ہونا نہیں دیکھنا چاہتی تھیں اور 2018 میں جب عمران نیازی کو اقتدار ملا تو اس نے ان ہی قوتوں کی ایماء اور ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے سی پیک کو مکمل طور پر منجمد کر دیا ورنہ جس رفتار سے سی پیک پرکام کا آغاز ہوا تھا اگر اسی رفتار سے یہ کام چلتا رہتا تو آج پاکستان کا نقشہ بدل چکا ہوتا اور اس نئے کوریڈور کی گنجائش ہی نہ نکلتی مگرامریکہ ،اسرائیل اور انڈیا کی ایماء پر عمران نیازی نے سی پیک کو ختم کرنے کے لیے ہر وہ اقدام کیا جس کانتیجہ آج اس نئے کوریڈور کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

عمر فاروق

عمر فاروق پچھلے 20 سال سے صحافت کے شعبہ رپورٹنگ سے منسلک ہیں، امور کشمیر، سیاسی اور مذہبی موضوعات پر وہ لکھتے ہیں۔اس ای میل ایڈریس aagahi313@gmail.com پراس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button