درد اتنے، خلاصے میں نہ آئیں گے! حنا پرویز بٹ

ستمگر ستمبر 2023شروع ہوگیا ہے، ایک پاکستانی ماں کا پیغام سن کر روح تک کانپ اٹھی ، ماں بولی مہنگائی نے دن کا سکون ،رات کا چین چھین لیا ہے،گھر میں فاقہ ہے، حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں ،کھانا کپڑا اور دوا پوری نہیں ہوتی، کرایہ،بنجلی کے بھاری بل کہاں سے ادا کریں؟

بیٹی نے دفتر سے تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا تو مالک نے اپنی ہوس پوری کرنیکا مطالبہ سامنے رکھ دیا، چھلکتی آنکھوں سے ماں نے کہا میں نے مولوی صاحب سے سن رکھا ہے کہ جب مارے بھوک کے جان کے لالے پڑجائیں، سامنے موت آن کھڑی ہو تو حرام بھی مباح ہو جاتا ہے، تم ہی بتائو بیٹی کیا میں اپنی بیٹی کو اجازت دیدوں کہ وہ اپنی عزت قربان کر کے حرام کھالے ؟ میں نے تو رو رو کر دعا کی ہے یا اللہ یا تو ہمارے حالات بدل دے یا پھرہمیں اٹھا لے،نجانے ہماری دعائیں کیوں نہیں پوری ہوتیں ؟ جنت کا پتہ نہیں البتہ زندگی میں ہی جہنم دیکھ اور سہہ بھی رہے ہیں۔ اس ماں کی فریاد سننے کے بعد کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ روئوں یا جگر پیٹوں ! پورے پاکستان سے خوفناک خبریں آرہی ہیں ،عوام چیخ رہے ہیں کہ کیا یہ تھا نیا پاکستان جس کیلئے پانچ سال پہلے خوشحال پاکستان اجاڑا گیا؟

اب تو تم خوش ہو کہ تم نے ترقی کی راہ پر رواں دواں ملک کو منہ کےبل گرا دیا ، تم نے دعویٰ کیاتھاکہ ملک کو مصنوعی بیساکھیوں کے سہارے چلایا جارہا ہے ہم حقیقی بنیادوں پر چلائیں گے، واقعی تم نے کام کر دکھایا ،شادیانے بجائو آج سٹاک ایکسچینج کریش کرگئی ہے، تم یہی چاہتے تھے نا کہ نئی سرمایہ کاری رک جائے خوش ہوجائو نئی سرمایہ کاری رک گئی ہے ،تم نے خطوط لکھوا کر عالمی اداروں کو کہا کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے تاکہ یہ ڈیفالٹ کر جائے،تمہاری تمام تر سازشوں اور کوششوں کے باوجود وطن تو ڈیفالٹ سے بچ گیا لیکن عوام مہنگائی کے ہاتھوں عملی طور پر ڈیفالٹ کرچکے ہیں،تم نے چور چور کا بیانیہ چلا کر انقلاب لانے کے دعوے کئے لیکن تمہاری ناک کے نیچے قومی خزانے پرڈاکے پڑتے رہے لیکن تم تو ہینڈسم ہینڈسم کھیلتے رہے، تم نے جس ایجنڈے پر کاربند رہ کر اسٹیٹ بینک کو بے دست و پا کیا آج بچہ بچہ اس بارے جان گیا ہے، تم نے جس غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرکے ملک کی کمر توڑی وہ سب پر آشکار ہوچکا ہے، جس عذاب میں مبتلا کرکے تم گئے اس کے بعد فیکٹریاں اور گھر دونوں چلانے ناممکن ہوگئے ہیں۔

کہاں ہے وہ ارسطو جس نے پروپیگنڈا کیا کہ امریکی ڈالر کو آزاد کرنا وقت کی ضرورت ہے،اس ارسطو کو بتایا جائے کہ روپیہ زندہ درگور ہوگیا ہے، ڈیفالٹ کے بعد سری لنکا میں ڈالر تین سو روپے سے زیادہ کا ہوگیا جبکہ بغیر ڈیفالٹ ہمارے یہاں ڈالر 325 روپےپر جا پہنچا، کرپشن روکنے اور زندگی آسان کرنے کا وعدہ کرنے والوں کو بتایا جائے کہ پیٹرول ڈیزل کی ٹرپل سنچریاں ہوگئی ہیں، دیسی منڈیلا کو بتایا جائے کہ مجبورعوام کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔

بجلی،ڈالراور دیگر اشیاء کی بڑھتی ہوئی ہوشربا قیمتوں پر احتجاج شروع ہو چکے ہیں،کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ کرنیوالے کو بتایا جائے کہ آج ملک میں لاکھوں نوجوان بے روزگار ہوچکے ہیں، مشکلات بارے خالد ندیم شانی نےکیا خوب منظر کشی ہے ’’خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے،غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے،مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی، درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے‘‘سوچتی ہوں کہ سفید پوش تنخواہ دار درمیانے طبقےاور مزدور کلاس کیسے گزارا کررہے ہوں گے؟ افراط زر نے عوام سے قوت خرید ،قوت برداشت چھین کر اسےمایوسیوں اور غموں کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے،عوا م بجلی کے بلوں کی چکی میں پس پس کر خودکشیاں کرتے رہیں لیکن تمہیں کیا؟

تم تو قید میں بھی دیسی گھی میں پکے دیسی مرغ ،چانپیں،کالی مرچ میں بنے کریلے قیمہ اڑائو ، عوام پھل خریدنے کی عیاشی سے محروم ہوچکے ہیں لیکن تم قید میں بھی تازہ پھل نوش جان کرو،عوام ڈاکٹر کے پاس جانے کی سکت بھی کھو چکے ہیں لیکن تم اپنا معائنہ پانچ ڈاکٹروں سے مفت کروائو،خبر ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اٹک میں اٹکا ہوا خوشی خوشی بیرون ملک روانہ ہو جائے گا کیونکہ آئوٹ گوئنگ اہلیہ انہی قطریوں کوپکار رہی ہے جن کو تم اور تمہاری پروپیگنڈا ٹیم نے سوشل میڈیا پربدنام کیا تھا، میں تو یہی کہوں گی کہ مذاکرات کی ٹرین کب کی چھوٹ چکی ہے ۔کان کھول کر سن لو جتنا تم نے عوام ، ملک اور اداروں کے ساتھ کھلواڑ کیا ہےاس کے بعد اب تمہیں اقتدار کا الف بھی نہیں ملے گا، بہتر ہوگاعوام کی زندگیوں سے دور الطاف حسین کے پاس چلے جائو ،اسے رنگ کھیلنا اور رنگ بازی کرنا خوب آتا ہے ، بقول شاعر’’خوب گزرے گی جو مل جائیں گے دیوانے دو۔‘‘

بشکریہ روزنامہ جنگ

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

حنا پرویز بٹ

حنا پرویز بٹ مسلم لیگ ن کے رہنما ہیں وہ ممبر پنجاب اسمبلی رہ چکی ہیں وقتاً فوقتاً پرنٹ میڈیا میں ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں
Back to top button