تعلیمی نظام میں رٹہ سسٹم تخلیقی صلاحیتوں کا دشمن

کافی عرصہ بعد ایبٹ آباد شہر جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جو دیگر بڑے شہروں میں کئی حوالوں سے ممتاز اور نمایاں ہے۔ مثلًا: قدرتی حسن، معتدل موسم، صاف ستھری آب و ہوا، علاج و معالجہ کی جدید سہولیات، امن و امان، قدرتی مناظر، سیاحتی مقامات اور ملک کی سب سے بڑی پاکستان ملٹری اکیڈمی جیسے امتیازات کا حامل شہر ہے۔

ایک بڑا اور معتبر حوالہ یہاں کا تعلیمی معیار ہے، جس کی بابت یہ شہر پاکستان بھر میں مشہور و معروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مضافاتی علاقوں، دیگر اضلاع اور دور دراز کے دیہاتوں کے لوگ بھی اپنے بچوں کی بہتر اور معیاری تعلیم کے حصول کے لیے ہجرت کر کے یہاں رہائش پذیر ہیں۔چونکہ حالیہ دنوں ایبٹ آباد تعلیمی بورڈ نے میٹرک سطح کے نتائج کا اعلان کیا ہے، اس لیے جہاں بھی نظر اٹھا کر دیکھا ہر سُو احساسِ تفاخر لیے بینرز، دیو قامت بل بورڈز اور ہفت رنگ پوسٹرز ہی نظر آئے۔

رنگ و نور کا یہ اہتمام تعلیمی اداروں بالخصوص پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف سے کیا گیا ہے، یوں اپنے اپنے اداروں کا شاندار رزلٹ نمایاں کیا گیا ہے، تقریباً ہر اشتہار پر ہی ہونہار طلبہ، ان کے حاصل کردہ امتیازی نمبرز اور ساتھ ایک غیر محسوس طریقے سے اپنے ادارے میں داخلے کا دعوت نامہ بھی دیا گیا ہے۔حسن کارکردگی کا اعلان کرتے شہر بھر میں آویزاں ان بینرز اور پوسٹرز کو میں دیکھتا رہا اور ساتھ کئی سوالات بھی ذہن میں ابھرتے رہے۔

عصر رواں میں تعلیمی حوالے سے اتنے اہتمام کے باوجود امام غزالی اور جابر بن حیان جیسے نابغۂ روزگار ان اداروں میں کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اس حسن کارکردگی کے باوجود البیرونی اور عمر خیام جیسے عالی خیال کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اتنے شاندار رزلٹ کے ہوتے ہوئے ابن سینا اور الخوارزمی جیسے زرخیز دماغوں سے ہمارے تعلیمی ادارے کیوں خالی ہیں؟ اعلی معیار تعلیم رکھنے والے ان اداروں سے سند فضیلت حاصل کرنے والوں میں ابن رشد اور الفرغانی جیسا کوئی روشن دماغ کیوں نہیں نکلتا؟

ان پوزیشن ہولڈرز میں رازی و فارابی جیسے تخلیق کار کیوں نہیں ابھرتے؟ سوالات کے اس گھنے جنگل میں کھویا گھر پہنچا، تو مختلف زاویوں سے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے قابل ذکر افراد کار کیوں نہیں نکلتے؟ تسخیر کائنات کا عزم رکھنے والوں کو پیدا کرنے کے لیے ہمارے تعلیمی ادارے کیوں بانجھ پن کا شکار ہیں؟

سائنسی کرشمے دکھانے والے کیوں ناپید ہیں؟ اس کی بہت سی ممکنہ وجوہات اور جوابات ذہن میں آتے ہیں۔ان میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے تعلیمی اداروں نے امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیاب ہونے کو ہی مقصد اول بنا لیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ نمبروں کے حصول میں مسابقت نے تخلیقی صلاحیتوں کو کند کر دیا ہے۔ طلباء کو رٹے لگا کر طوطا بنانے پر زور دیا جاتا ہے، تاکہ شاندار رزلٹ حاصل کیا جا سکے، حالانکہ کسے نہیں معلوم کہ رٹے لگا کر طلباء کو طوطا تو بنایا جا سکتا ہے، مگر تحقیقی مزاج کبھی بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا۔رٹی رٹائی نصابی کتابوں کے ذریعے نوکری پیشہ لوگ تو پیدا کیے جا سکتے ہیں، مگر سائنسی میدان میں ایجادات کرنے والے نہیں پیدا کیے جا سکتے۔

ہمارے تعلیمی نظام میں نصابی کتب طلبہ کو ازبر کروا کر پوزیشن تو دلوائی جا سکتی ہے، مگر تخلیقی صلاحیت نہیں پیدا کی جا سکتی۔ لہذا محکمۂ تعلیم کو چاہیے کہ وہ امتحان کا ایسا طریقہ کار اختیار کریں جس کے ذریعے سے طلبہ کی ذہنی استعداد،تحقیقی صلاحیت اور تخلیقی رجحان کی آزمائش کی جا سکے اور اساتذہ کرام کو چاہیے کہ وہ طلباء کے ذہن کی اس طرز پر آبیاری کریں تاکہ ان کی ذہنی استعداد کی نشوونما ہو سکے اور ان میں کچھ نیا کرنے کا جذبہ و جنون پیدا ہو سکے، یہی ہمارے نظام تعلیم کا اولین مقصد ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ذوالقرنین عباسی

مولانا ذوالقرنین عباسی مذہبی سکالر ہیں، انہیں مذہبی اور سماجی موضوعات پر لکھنا پسند ہے، گزشہ کئی برسوں سے ان کی تحریریں پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر شائع ہو رہی ہیں۔
Back to top button