نگران وزیراعظم اور حکومت کو کیا اختیارات حاصل ہوں گے؟
اسمبلیاں تحلیل ہونے کے فوری بعد نگراں وزیر اعظم کا اعلان ہوتا ہے، جس پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشاورت سے کسی نام پر اتفاق کرتے ہیں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وہ اپنی کابینہ تشکیل دیتے ہیں یہ پراسس ہو جانے کے بعد الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں۔ الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017ء کے مطابق نگران حکومت کا کام صاف، شفاف اور غیر جانبدارنہ انتخابات کا انعقاد اور روزمرہ کے حکومتی امور انجام دینا ہے۔ نگران حکومت خود کو روزمرہ سرگرمیوں، غیر متنازع، اہم اور عوامی مفاد کے معاملات اور ان اقدامات تک محدود رکھے گی، جن کو مستقبل میں آنے والی حکومت واپس بھی لے سکے۔
نگران حکومت کے پاس کوئی بڑا پالیسی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ نگران حکومت کوئی ایسا فیصلہ یا پالیسی بھی نہیں بناسکتی جو آئندہ حکومت کے فیصلوں پر اثرانداز ہو۔ نگران حکومت عوامی مفاد کے خلاف کوئی بڑا معاہدہ نہیں کرسکتی۔نگران حکومت کسی ملک یا بین الاقوامی ادارے کے ساتھ 2 طرفہ مذاکرات کا حصہ بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرسکتی ہے جب تک کہ ایسا کرنا انتہائی ضروری نہ ہو۔
نگران حکومت، سرکاری ملازمین کی تقرریاں، تبادلے یا ترقیاں بھی نہیں کرسکتی۔ ایسا صرف عوامی مفاد میں مختصر مدت کے لیے ہی کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ضروری قرار دیے جانے پر ہی عوامی عہدہ رکھنے والے افسران کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔نگران حکومت کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کرسکتی جو عام انتخابات کی شفافیت پر اثر انداز ہوسکے۔نگران حکومت کے اراکین کو کسی قسم کی مراعات تاحیات نہیں ملتیں۔ یہاں تک کہ نگران وزیرِ اعظم کے پاس حکومت کی میعاد ختم ہونے پر کوئی مراعات نہیں ہوتیں۔
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کے مطابق ایکٹ کی شق 230 کے تحت نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے۔ مجوزہ ترمیم میں مزید ترمیم کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ نگران حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیارات استعمال کر سکے گی اور اہم پالیسی فیصلے لے سکے گی۔
الیکشن ایکٹ میں جو تازہ ترامیم کی گئی ہیں ان کے تحت الیکشن کے دن پولنگ ختم ہونے کے بعد پریزائیڈنگ افسر انتخابی نتائج رات 2 بجے تک الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو بھیجنے کا پابند ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہو پایا تو تاخیر کی ٹھوس وجہ تحریری طور پر بتانے کا پابند ہوگا۔
ترمیمی بل کے مطابق نئی حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے کی جائیں گی۔بل کے تحت پولنگ کے دن سے پانچ روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں کیا جاسکے گا، جبکہ قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ایک کروڑ روپے تک جبکہ صوبائی نشست کے امیدوار انتخابی مہم پر 40 لاکھ تک خرچ کر سکیں گے۔