ڈیجیٹل دور میں باسی خبروں پر مشتمل اخبارات کون پڑھے؟
اخبارات بند ہو رہے ہیں جو اخبارات نامساعد حالات کے باوجود چل رہے ہیں وہ کافی حد تک سُکڑ چکے ہیں کیونکہ اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہو چکی ہے۔ اخباری انڈسٹری کی تباہی کے کئی عوامل ہیں ایک مضمون میں تمام عوامل کا احاطہ کرنا مشکل ہے، ہم بڑے عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اخبارات قارئین کیلئے پیش کیا کر رہے ہیں؟ اگر پروڈکٹ ناقص، کمزور اور باسی ہے تو خریدار ہرگز نہیں آئیں گے۔ ایسا لگتا ہے اخباری انڈسٹری میں پروڈکٹ کو بہتر بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اخبارات اور ریڈیو پاکستان کی تباہی میں کئی مشترکہ قدریں ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ اب ریڈیو سنتا کون ہے کچھ کے عرصے بعد تسلسل کے ساتھ کہا جائے گا کہ اخبار پڑھتا کون ہے؟
اخبارات اپنے معیار کی بدولت ابلاغ کا مستند ترین ذریعہ تھے، اخبار میں شائع خبر پر سرکاری اداروں کے حکام کیلئے دفاع کرنا مشکل ہو جاتا تھا، اخبارات عوامی مسائل کا حل کا بہترین فورم تھے، ایڈیٹرز بھی کمال کے تھے جو بہترین پروڈکٹ تیار کرتے تھے جسے عوامی حلقوں میں پسند کیا جاتا تھا پھر ایسا زمانہ آیا کہ پروڈکٹ کمزور ہونے لگی، جب پروڈکٹ کمزور ہوئی تو عوامی دلچسپی بھی کم ہو گئی۔ نتیجتاً اخباری انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی مگر مالکان اس خوش فہمی میں رہے کہ انہیں برابر اشتہارات مل رہے ہیں۔
2014 میں ایک قومی اخبار کے مالک اور اہم ذمہ داروں کی میٹنگ میں، میں بھی شریک تھا ایک سینئر صحافی نے مالک اور سرکولیشن مینیجر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 5 برسوں میں اخبار کی سرکولیشن میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ مالک نے سرکولیشن مینیجر کی طرف دیکھا اور گویا ہوئے کہ قارئین کی تعداد میں اضافہ تو نہیں ہوا البتہ ہمارے پڑھنے والوں کی تعداد کم بھی نہیں ہوئی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ اگر نئے قارئین آپ کا اخبار نہیں خرید رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے قارئین کی تعداد کم ہو رہی ہے کیونکہ نئی نسل کو آپ کی پروڈکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ایک وقت آئے گا آپ کے قارئین کم ہونے لگیں گے اور اس وقت آپ کے پاس سرکولیشن بڑھانے کا کوئی آپشن نہیں ہو گا۔ اخبار کے مالک مگر یہ ادراک نہ کر سکے اور دلیل کے طور پر کہنے لگے کہ جب الیکٹرانک میڈیا آیا تو کہا گیا کہ اخبارات کے مقابلے میں ٹی وی پر جلد خبر شائع ہو جاتی ہے مگر اخبارات پڑھنے والے کم نہ ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیبل کی سہولت دیہی علاقوں میں دستیاب نہیں ہے، ایسے علاقوں کے لوگوں کیلئے اخبارات ہی ابلاغ کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔ یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ ٹی وی پر چلنے والی خبر چند لمحوں کے بعد نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اس کے مقابلے میں اخبار میں شائع ہونے والی خبر کو کسی بھی وقت تسلی سے پڑھا جا سکتا ہے۔
انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی انٹری کے بعد بھی اخبار کے مالک دو طرح کی غلطی کر رہے تھے ایک تو پروڈکٹ پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی، جب بھی کوئی سینئر گیا تو جونیئر کو اس کے اختیارات سونپ دیئے گئے اور اپنے تئیں خوش ہوئے کہ سینئر جو پیکج لے رہا تھا اس سے کم پر جونیئر وہی کام کرنے پر تیار ہے، یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی کہ جونیئر جو ڈلیور کر رہا ہے وہ آپ کی پروڈکٹ کو کمزور کر رہا ہے۔ یہ دراصل پیسوں کی بچت نہیں بلکہ حقیقت میں ایسا نقصان ہے جو ایک دن آپ کے ادارے کو تباہ کر دے گا۔
اخباری پروڈکٹ کو صحافی تیار کرتے تھے جس کے پاس جتنا تجربہ اور دماغ ہوتا اسی حساب سے میڈیا مالکان معاوضہ دینے پر آمادہ ہو جاتے مگر پھر ٹرینڈ تبدیل ہونا شروع ہوا، پروڈکٹ تیار کرنے والے صحافیوں پر مارکیٹنگ ٹیم کو فوقیت دی جانے لگی۔ مارکیٹنگ ٹیم کو پرکشش پیکجز اور مراعات فراہم کرتے ہوئے یہ سوچنے کا تکلف نہیں کیا گیا کہ جب پروڈکٹ کمزور ہو جائے گی تو مارکیٹنگ کس چیز کی کریں گے؟
2015 میں اخبار کی سرکولیشن متاثر ہونے لگی تو ایک بار پھر میٹنگ بلائی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ سوشل میڈیا سے مواد لے کر اخبار کو عوام میں مقبول بنایا جائے۔ ایک بار پھر غلطی کی گئی کہ جو مواد آپ سوشل میڈیا سے لیکر کر اخبار کی زینت بنا رہے ہیں وہی مواد عوام دوبارہ کیونکر پڑھیں؟ اخباری مالکان نے دوسری غلطی یہ کی کہ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر اخبارات کو استوار نہیں کیا۔ یہ معروضات اس پیش کی ہیں کہ آگے جو بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ سمجھ آ جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ فیکٹری بند ہو جاتی ہے جس کے سامان کا مارکیٹ میں خریدار نہ رہے۔ متعدد اشیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی گئیں۔ ذرا تصور کریں کہ اگر آپ کا کوئی کولیگ کہے کہ وہ روزانہ تانگے پر دفتر آتا ہے، آپ حیرت کا اظہار کریں گے اور سو طرح کے سوال کریں گے کہ ترقی کے اس دور میں وہ یہ سب کیسے کر لیتا ہے آپ لازمی طور پر کہیں گے کہ بھائی جتنا وقت آپ دفتر آنے جانے پر لگاتے ہیں اتنے وقت میں کتنے کام کر سکتے ہیں۔
اس وقت اخبارات کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ 24 گھنٹے کی باسی خبروں کو پرنٹ کر کے عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے، ایسی باسی خبروں پر مشتمل اخبار کون خریدے گا اور کیونکر خریدے؟ میں راولپنڈی کے جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں صرف میرے گھر پر ہی اخبار آتا تھا وہ بھی اس لئے کہ ادارے کی طرف سے اعزازی کاپی لگی ہوئی تھی۔ اخبار کا ماہانہ بل 8 سو روپے سے زائد بنتا ہے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے کم میں ماہانہ انٹرنیٹ پیکج حاصل کر کے پوری فیملی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
خبروں کی حد تک اخبارات بہت پیچھے رہ گئے ہیں، البتہ چند ایک اخبارات نے اپنے ادارتی صفحات پر کام کیا ہے، نامور کالم نگاروں کو پڑھنے کیلئے لوگ اب بھی اخبار خریدتے ہیں، جن اخبارات کے ادارتی صفحات کمزور ہیں وہ اس دوڑ میں بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ میگزین اخبارات کا لازمی حصہ تھے، مگر سب سے پہلے میگزین کو مائنس کیا گیا ہے، روس یوکرین جنگ کو اخباری میگزین کے خاتمے کی وجہ قرار دیا گیا کہ کاغذ وہاں سے درآمد ہوتا تھا جو کئی گنا مہنگا ہو گیا ہے لیکن حقیقت اس کے خلاف ہے، معاملہ یہ ہے کہ میگزین کو اشتہارات نہیں ملتے ہیں، اگر ملتے بھی ہیں تو اس کے ریٹس بہت کم ہوتے ہیں جبکہ اس پر خرچہ زیادہ آتا ہے اس لئے میگزین کو ختم کرنا اخباری مالکان کیلئے ضروری ہو گیا تھا۔
حیرت کی بات ہے کہ بعض قومی سطح کے اخبارات کی سرکولیشن محض چند سو ہے، اس کی نسبت ڈیجیٹل میڈیا کی ویور شپ لاکھوں میں ہوتی ہے، اخباری مالکان بھی یہ بات جان چکے ہیں کہ آنے والے وقت میں اخبارات کی سرکولیشن مزید کم ہو جائے گی، اس لئے وہ اخبارات پر خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، جب تک اشتہارات ملتے ہیں وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بعض اداروں میں کام کرنے والے پروفیشنلز کو مزدور سے بھی کم اجرت ادا کی جاتی ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قدر کم اجرت پر بھی صحافی دستیاب ہیں، بلکہ کئی تو بلامعاوضہ بھی کام کیلئے تیار ہو جاتے ہیں بلامعاوضہ کام کرنے والے صحافی گزر بسر کیسے کرتے ہیں؟ یہ تفصیل طلب بحث ہے، تاہم مختصراً عرض ہے کہ بلامعاوضہ کام کرنے والا ہی زرد صحافت کرتا ہے جس میں اخباری مالکان برابر کا حصہ وصول کرتے ہیں مطلب یہ کہ خود بھی کماؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔
بڑے میڈیا ہاؤسز نے حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنا ڈیجیٹل میڈیا سٹرونگ کیا، ویب سائٹ کو جدید خطوط پر استوار کیا، فیلڈ رپورٹرز جو خبریں دیتے ہیں وہ فوری طور پر ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے نشر ہو جاتی ہیں، سچ تو یہ ہے کہ بڑے میڈیا ہاؤسز بہت سے چھوٹے میڈیا ہاؤسز کو مواد کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، کیونکہ چھوٹے میڈیا ہاؤسز کیلئے ہر فیلڈ کا رپورٹر رکھنا اور معاوضہ پر لکھاریوں کی خدمات حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ اخبارات اپنے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، یوں لگتا ہے آنے والے چند برسوں میں ڈیجیٹل میڈیا اخبارات کو کھا جائے گا، اور اخبارات صرف لائبریریوں میں ہی دکھائی دیں گے۔ ڈیجیٹل میڈیا دراصل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا مکسچر ہے، یعنی ایک جگہ پر سب کچھ دستیاب ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈیجیٹل میڈیا نے الیکٹرانک میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جو میڈیا ہاؤسز زمانے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے وہ ابلاغ کی دنیا میں مقابلے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔