توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نااہلی کی 7 وجوہات
سرکاری حکام، وزرا، وزیراعظم اور صدر کو اپنے اپنے عہدوں کے دوران بیرون ممالک کی طرف سے جو تحائف ملتے ہیں، چونکہ وہ تحائف ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ انتظامی عہدے کی وجہ سے ملتے ہیں، اس لیے اس عہدے کے دوران ملنے والے تحائف قوم کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ان تحائف کو ایک سرکاری مقام میں رکھا جاتا ہے، جہاں ان کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب ہوتا ہے، اس مقام کو "توشہ خانہ” کہتے ہیں۔
اصل مدعا کی طرف آنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ توشہ خانہ سے کوئی بھی وزیر، وزیراعظم یا صدر ملنے والے تحائف کو خرید کر اپنے استعمال میں لا سکتا ہے اور اس حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ مثلا: اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو سربراہ حکومت بلا قیمت رکھ سکتا ہے، جبکہ اس سے زیادہ کی مالیت کے تحائف حاصل کرنے کے لیے 50 فی صد قیمت سرکاری خزانے میں ادا کرنا ضروری ہے۔ سابق وزرائے اعظم کی طرح عمران خان کو بھی بہ طور وزیراعظم تحائف ملے۔
عمران خان نے 7 ستمبر 2022 کو الیکشن کمیشن کی طرف سے اپنے خلاف دائر ریفرنس کے تحریری جواب میں اعتراف کیا تھا کہ انہیں بہ طور وزیراعظم یکم اگست 2018 اور 31 دسمبر 2021 کے دوران 58 تحائف دیے گئے۔ یہ تحائف زیادہ تر گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیومز، تسبیح، خطاطی کے پارے، تصویری فریمز، پیپر ویٹ، اور پین ہولڈرز جیسی اشیاء پر مشتمل تھے، جبکہ ان میں گھڑی، قلم، کف لنکس، انگوٹھی اور لاکٹس قابل ذکر ہیں۔
چنانچہ عمران خان نے بطور وزیراعظم ان میں سے کچھ تحائف توشہ خانہ میں جمع کرنے کی بجائے خود خرید یا رکھ لیے۔ اس دوران مسلم لیگ نون کے رہنما محسن نواز رانجھا نے الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف مبینہ طور پر توشہ خانہ تحائف کے بارے میں قانونی بے ضابطگیوں کی درخواست دائر کر دی۔ درخواست میں درج معلومات اور شواہد کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے اسلام اباد کی سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے متواتر اس کیس کی پیروی کی۔
چنانچہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز ہو گیا اور اس کیس کو "توشہ خانہ فوج داری کیس” کا نام دیا گیا۔ اس اثنا میں عمران خان نے اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے کی غرض سےتین بار اسلام آباد ہائی کورٹ، جبکہ ایک بار سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ تاہم اس وجہ سے کیس کا حتمی فیصلہ آنے میں تاخیر ضرور ہوئی مگر کیس بدستور قابل سماعت رہا۔ آخرکار 5 اگست 2023 کو اسلام آباد کی سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ کورٹ کے فاضل جج ہمایوں دلاور نے کئی سماعتوں کے بعد شواہد کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت حتمی تحریری فیصلہ سنا دیا، جس کی رو سے چیئرمین پی ٹی آئی کو ایک لاکھ روپے جرمانہ، تین سال قید اور پانچ سال کی نااہلی کی سزا سنائی گئی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان سے توشہ خانہ تحائف کے بارے میں قانونی طور پر وہ کون سی بے ضابطگیاں اور بے قاعدگیاں ہوئیں، جن کی بنیاد پر ان کو مذکورہ سزا سنائی گئی؟ تو عرض ہے کہ ان سے قانون کی ایک نہیں کئی خلاف ورزیاں ہوئیں۔
پہلی بے ضابطگی یہ ہوئی کہ توشہ خانہ کی اشیاء خریدنے کے لیے 50 فیصد رقم کی ادائیگی کا قانون خود پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بنا تھا، لیکن انہوں نے 20 فیصد کے حساب سے ہی ادائیگی کی۔
دوسری یہ کہ قانون کی رو سے تحائف کی قیمت کا تخمینہ ایک کمیٹی کو لگانا تھا، لیکن انہوں نے کبھی اس کمیٹی سے تخمینہ نہیں لگوایا، بلکہ خود ہی قیمت کا تعین کرتے رہے۔
تیسری یہ کہ تحفے کی رقم عمران خان کے اکاؤنٹ سے سرکاری خزانے میں جمع ہونا تھی، جو کہ نہیں ہوئی۔
چوتھی یہ کہ اپنے استعمال میں لانے کی غرض سے ہی تحائف خریدے جا سکتے ہیں، جبکہ انہوں نے کچھ تحائف تو اپنے ذاتی استعمال میں لائے، بقیہ تحائف انہوں نے آگے فروخت کر دیے۔
پانچویں یہ کہ توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کسٹم رولز کے خلاف ایک نجی جہاز کے ذریعے بیرون ملک فروخت کرنے کے لیے بھیج دیے گئے۔
چھٹی یہ کہ بیرون ملک فروخت شدہ تحائف کی رقم کسی بینک چینل سے لانے کی بجائے نجی طور پر اسی جہاز کے ذریعے ملک میں لا کر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے اکاؤنٹ میں جمع کر دی گئی۔
ساتویں یہ کے تحائف کی فروخت سے ملنے والی رقم انہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع تو کی، لیکن الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔ یہ وہ قانونی بے ضابطگیاں تھیں، جن کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں سزا سنائی گئی۔