6 ٹریلین ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر میں کتنی حقیقت؟

یکم اگست کو اسلام آباد میں پاکستان منرلز سمٹ "ڈسٹ ٹو ڈویلپمنٹ” میں سعودی عرب، کینیڈا سمیت دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں نے شرکت کی ہے، بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہان اور وفود کا پاکستان کے معدنی ذخائر میں سرمایہ کاری میں اظہار دلچسپی اس بات کی علامت ہے کہ ہم پچھلے کئی برسوں سے پاکستان کے جن قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر کا ذکر سنتے آئے ہیں اب اس پر عملی طور کام شروع ہونے والا ہے، ڈسٹ ٹو ڈویلپمنٹ کو اردو میں "مٹی نہیں ترقی” کا نام دیا گیا ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں 6 ٹریلین ڈالر مالیت معدنیات کے ذخائر موجود ہیں جن میں سونا، تانبا اور کوئلے سمیت دیگر کئی قیمتی معدنیات شامل ہیں۔

وفاقی وزیر مصدق ملک کے مطابق اس وقت دنیا کی تین بڑی کمپنیوں گوگل، ایپل اور ایمیزون کی مجموعی مالیت6 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا سمیت دیگرصوبوں میں موجود معدنیات کی مالیت 6 ٹریلین ڈالر سے زائد ہے۔ حکومت آئندہ چند برسوں میں معدنیات کی برآمدات کو5 ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہشمند ہے جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ معدنیات کے شعبے میں 3 لاکھ افراد کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں۔

پاکستان منرلز سمٹ "ڈسٹ ٹو ڈویلپمنٹ” کا پہلا ہدف بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ہے، جبکہ دوسرے مرحلہ میں منرل ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کرنے کا منصوبہ قائم کیا جائے گا۔ پاکستان منرلز سمٹ کا کامیاب انعقاد اور اس سیمینار میں بیرک گولڈ جیسی بین الاقوامی کمپنیوں کے اعتماد کی بحالی دراصل سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کے اجراء سے ممکن ہوا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشی بحالی کیئے سنجیدہ فیصلہ کر لیا گیا ہے جس کے تحت آئندہ برسوں میں مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ سیاسی رہنما پاکستان کے قدرتی وسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، بالخصوص امریکی کمپنیوں سے موازنہ کرنا قطعی طور پر حقائق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے اور یہ کہ پچھلے 75 برسوں میں قدرتی ذخائر کی بات کی جاتی رہی ہے، کبھی کہا گیا کہ سمندر سے گیس کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جو ہمارے سارے قرضے اتار دیں گے اور آنے والی نسلوں کی خوشحالی کی ضمانت بنیں گے، کبھی چنیوٹ سے لوہے کے ذخائر دریافت کرنے کا دعویٰ کیا گیا، بلوچستان میں سونے کے ذخائر کا دعویٰ بھی بہت پرانا ہے۔ چونکہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس عوام کے سامنے کچھ پیش کرنے کیلئے نہیں ہے اس لئے معدنیات کا نعرہ لگا دیا گیا ہے۔

معدنیات کو نکالنا اس قدر آسان کام نہیں اس مقصد کیلئے بڑے سرمائے کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ بیرک گولڈ کمپنی بلوچستان سے سونے نکالنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور ہماری شرائط کے مطابق پاکستانی روپوں میں ادائیگی کیلئے بھی تیار ہے، اسی طرح سعودی عرب حکومتی سطح پر اور نجی سطح پر معدنیات کو نکالنے کیلئے سرمایہ لگانے کیلئے تیار ہیں صاف ظاہر ہے یہ معاملات دوطرفہ مفادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو سرمایہ لگائے گا وہ کمائے گا بھی اس لئے ہمیں بہرصورت یہ فیصلہ کرنا ہی ہو گا کیونکہ معدنیات موجود ہیں انہیں نکالنے کیلئے جس سرمائے اور مہارت کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے سو ہمیں مزید وقت برباد کرنے کی بجائے یہ سٹیپ اٹھانا ہو گا معدنیات سے مستفید ہونے کیلئے یہی ایک راستہ ہے دوسرا راستہ وہی پرانا ہے کہ انتظار کریں ،نہ خود ان معدنیات کو نکالیں اور نہ کسی دوسرے کو نکالنے دیں۔

معاشی بحالی کے جس پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے اس میں 2023 میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن ہوں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں، یہ کیسی منطقی ہے کیونکہ نئی مردم شماری کے نتائج کا ابھی تک سرکاری اعلان نہیں ہو سکا، تنائج کا اعلان ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کو چار ماہ کا عرصہ درکار ہو گا، مردم شماری کے نتائج پر ممکنہ طور پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہوں گے جنہیں دور کرتے ہوئے مزید کچھ وقت گزر جائے گا، اس طرح قوی امکان ہے کہ 2024 کے اوائل میں انتخابات ہو سکتے ہیں۔

مقتدر حلقے چاہتے ہیں کہ اس دوران آئی ایم ایف سے اگلی قسط حاصل کر لی جائے اور معاشی بحالی پروگرام کے تحت ضروری اقدامات اٹھا لئے جائیں، سیاسی منظر کچھ یوں بنتا دکھائی دیتا ہے کہ اسمبلیاں تو اپنی آئینی مدت کے وقت تحلیل ہو جائیں گی لیکن الیکشن چند ماہ کی تاخیر سے ہوں گے۔

معاشی بحالی کا جو سفر شروع ہوا ہے اسے جاری رہنا چاہئے، آثار سے دکھائی دیتا ہے کہ جو کام پچھلے 75 برسوں میں نہیں ہو سکا ہے وہ اب ہونے جا رہا ہے لیکن ارباب اختیار کو اپنی سیاست بچانے کیلئے کسی بھی ایسے بیان یا دعوے سے گریز کرنا چاہئے جو حقائق سے مطابقت نہ رکھتا ہو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسا سمندر سے گیس کے ذخائر نکلنے کا قبل از وقت دعویٰ کیا گیا اور بعد ازاں سبکی اٹھانی پڑی۔ اب 6 ٹریلین کے معدنی ذخائر کا دعویٰ کیا گیا ہے، اس میں بھی مبالغہ آرائی کی گئی ہے، ممکنہ طور پر یہ سیاسی جماعتوں کا انتخابی نعرہ بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں قوم سے پورا سچ بولا جائے اگر ہم سچ بولنے کی عادت اپنا لیں تو قوم مشکلات کا سامنا کر سکتی ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سید ذیشان علی کاظمی

سید ذیشان علی کاظمی صحافی ہیں، وہ گزشتہ 15 برسوں سے حالات حاضرہ، سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر لکھ رہے ہیں اس ای میل ایڈریس zeshansyedkazmi@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button