گھریلو ملازمین پرتشدد، تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کیجئے

آپ میں سے کتنے لوگوں کے گھر گھریلو ملازمائیں کل وقتی یا جز وقتی آتی ہیں؟ میرا خیال ہے کہ مڈل کلاس کی تمام کٹیگریز کی فیملیز جیسے لوئر مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس کے ہاں جز وقتی اور عموماً شہری زندگی بلکہ دیہی زندگی میں بھی کل وقتی یا جز وقتی گھریلو ملازمائیں ہر حالت میں کسی نہ کسی طور یا کسی خاص مواقع پر ضرور گھروں میں کام کرنے آتی ہیں۔ اس کے لئے علاوہ ایلیٹ کلاس کے ہاں تو خاندانی طور پر پورا خاندان ہی ملازم ہوتا ہے بلکہ ان کے ہاں گھروں میں سرونٹ کوارٹر بھی ضرور ہوتے ہیں۔

یہ معاملہ ایلیٹ کلاس، اپر ایلیٹ کلاس یا مڈل کلاس کا ہی نہیں بلکہ اپر لوئر کلاس بھی عمومی ہے، پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قریب قریب ہر دوسرے گھر میں گھریلو ملازمائیں جزوی وقت یا مخصوص کاموں کے لیے گھریلو خدمات انجام دیتی ہیں۔ اور ہر دوسرا شخص گھریلو ملازماؤں کے رویوں کا شاکی بھی رہتا ہے، ہر دوسرا شخص یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ ہم اپنے گھریلو ملازماؤں یا گھر میں جز وقتی طور پر آنے والی ملازماؤں کا بہت خیال رکھتے ہیں، انہیں گھر کے فرد کی طرح ہی ٹریٹ کرتے ہیں، مگر وہ چھٹیاں بہت کرتے ہیں، کام صحیح نہیں کرتے، وہ جتنی تنخواہ و مراعات لیتی ہیں اتنا کام نہیں کرتیں، آج کل اعتماد کی گھریلو ملازمہ نہیں ملتی، وقت پر نہیں آتیں، ایڈوانس لے کر چھٹیاں کرتی ہیں، آدھے سے زیادہ کام ہمیں خود کرنا پڑتا ہے۔

گھریلو ملازماؤں کی سروسز دینے والی خواتین گھروں سے اکثر پورے خاندان کے ساتھ نکلتی ہیں، یعنی جتنی گھر کی خواتین ہوتی ہیں اتنی ہی ان میں انڈر ایج لڑکیاں ہوتی ہیں جو گھروں میں کام کرتی ہیں، اکثر اپر مڈل کلاس یا اہلیت کلاس میں یہ لڑکیاں کل وقتی بلکہ سال بھر کے لئے کسی گھر میں بطور ملازمہ کانٹریکٹ پر کام کرتی ہیں، اول یہ انڈر ایج ہوتی ہیں، اور پھر جب چوبیس گھنٹے ایک معقول ذہن جو بہت ساری معاشرتی یا سماجی کلاس کی تفریق کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں وہ مکمل طور پر کسی دوسرے گھر میں ملازم ہو تو اس کے کئی افعال ان مالکان کے لئے قابل قبول نہیں ہوتے۔ ان بچوں یا بچیوں کی غذائی ضرورت، خواہشات، خواب اس گھر میں انہیں نظر تو آرہے ہوتے ہیں مگر وہ ان کے لئے نہیں ہوتے بلکہ وہاں وہ صرف چوبیس گھنٹے سروس دینے کے لئے جبر کی کیفیت میں ادا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

ایسی بچیاں جب کسی گھر میں کام کرتی ہیں تو ان کے مالکان کے دعویٰ کے مطابق تو انہیں سب سہولیات دی جا رہی ہوتی ہیں، مگر حقیقتاً وہ بچیاں وہاں اگر کچھ ایسا کھا لیں جن کی انہیں اجازت نہ ہو، یا ان خواہشات میں اپنا حصہ لینے کی کوشش کریں تو مالکان کے عتاب کا شکار ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان گھروں میں ہر اچھی چیز کھانے کے لئے موجود تو ہوتی ہے، مگر ملازماؤں کو ترجیحی طور پر کھانے میں وہی ملتا ہے، جو پرانا ہو گیا ہو یا مالکان کے موڈ سے موافقت نہ رکھتا ہو، مالکان نے بچیوں کو صرف روٹی، کپڑا اور رہائش کی مد میں چوبیس گھنٹے کا ملازم رکھا ہوتا ہے، مالکان کے نزدیک وہ بچیاں نہیں بلکہ صرف ایک ملازم ہوتی ہیں، اور مالکان نے اس کے بدلے ان کی بچیوں کے والدین کو ایک معقول رقم ادا کی ہوتی ہے۔

چونکہ ہمارے جیسے لوگ ملازماؤں کو صرف ڈانٹ ڈپٹ کر یا اپنی طاقت کے مطابق صرف گھریلو کام سے فارغ کرکے یا ان کی تنخواہ روک دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تو ہم وہ کر لیتے ہیں، لیکن جج صاحبان کی بیگمات، جرنل و کرنل صاحبان یا بڑے صنعتکاروں کی بیگمات ان بچیوں یا ملازماؤں سے طاقت سے تکلیف دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو وہ کر گزرتی ہیں۔ یہ سادہ سا فارمولہ ہے کہ بطور قوم ہماری تربیت ہی ایسی ہوئی ہے۔ پاکستان جہاں کسی قسم کا کوئی قانون ہی نہیں ہے، وہاں آپ ایسے معاملات پر صرف دوسروں پر تنقید کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ آج کل گھریلو ملازمائیں انتہائی ضروری ہیں۔ اور ہم سب سے بہترین لوگوں کو ان کی خدمات کا بدلہ دیتے ہیں، حالانکہ جن کے حلقہ احباب میں یہ مظالم کرنے والی خواتین ہوں گی، ان سے برابری کے تعلق رکھنے والوں کے خیال میں یہ خواتیں بہترین کردار، معاشرتی نبھاؤ والی، با اخلاق ملنسار، خوف خدا رکھنے والی بلکہ انسانیت کا درد رکھنے والی خواتین ہوں گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

منصور ندیم

منصور ندیم بلاگر ہیں وہ پچھلے 15 برسوں سے سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں انہیں سماجی موضوعات پر لکھنا پسند ہے، اس ای میل ایڈریسmansoorhalaj6@yahoo.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے
Back to top button