نئے اسلامی سال کے آغاز پر کن امور کا جائزہ لینا ضروری ہے؟

کاروباری دنیا سے وابستہ لوگوں کا دستور ہے کہ وہ ہر گزرے سال کو سامنے رکھ کر بڑی باریک بینی سے نفع و نقصان کے گوشوارے مرتب کرتے، ترقی و ابتری کا جائزہ لیتے اور مقررہ اہداف کے حصول میں کامیابیوں و ناکامیوں کے اسباب پر غور کرتے ہیں۔ پھر نفع، ترقی اور کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھنے بلکہ ان میں مزید تیزی اور بہتری لانے کے لیے ضروری اقدامات کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف نقصان، ابتری اور ناکامیوں کے اسباب پر غور کر کے آئندہ سال میں اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی اصلاح کا عزم کرتے ہیں۔

قارئین! اسلامی کیلنڈر کے مطابق زندگی جیسی ہماری قیمتی متاع کا ایک اور سال گزر گیا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کی جو نعمت عطا کر رکھی ہے، اس میں سے ایک قیمتی سال مزید کم ہو گیا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر ہمیں بھی دینی و دنیاوی حوالوں سے نفع و نقصان، ترقی و ابتری اور کامیابی و ناکامی کا لازمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

یہ جائزہ دینی لحاظ سے بھی ہونا چاہیے اور دنیاوی لحاظ سے بھی۔ اگر دینی لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں، جن میں سے کچھ کا تعلق حقوق اللہ سے جبکہ کچھ کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ شرک اور شرکیہ کاموں سے احتراز، صوم و صلوٰۃ کی پابندی، راست گوئی، صداقت شعاری، ایفائے عہد، شرم و حیا، نظروں کی حفاظت، عصمت و پاک دامنی، دل کی پاکیزگی، موسیقی سے اجتناب، امانت و دیانت اور حرام خوری سے پرہیز حقوق اللہ میں سرفہرست ہیں۔

گزشتہ سال کو سامنے رکھتے ہوئے حقوق اللہ کے بارے میں خود احتسابی کی جائے کہ کیا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہم ان حقوق کی ادائیگی کما حقہ کر سکیں ہیں یا نہیں؟ جہاں اصلاح کی ضرورت ہو، وہاں عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ پھر حقوق العباد کے سلسلے میں بھی اس نوع کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام میں حقوق العباد کو بڑی اہمیت حاصل ہے، نیز ان کی ادائیگی کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ ان کی ادائیگی سے ہی ہم سماجی برتری حاصل کر سکتے ہیں اور ہمارا معیاری معاشرتی نظام قائم ہو سکتا ہے۔ والدین کی خدمت، بیوی کے نان نفقہ کی ادائیگی، اہل خانہ سے حسن اخلاق، اولاد کی درست تعلیم و تربیت، پڑوسیوں کی خیر خواہی، اساتذہ کا ادب و احترام، علمائے کرام کی تعظیم، عزیز و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی، محلے داروں کی خبر گیری، بیماروں کی عیادت، کم زور طبقوں سے ہم دردی، غریبوں کی امداد، مظلوموں کی داد رسی، یتیموں کی کفالت اور ماتحتوں سے حسن سلوک قابل ذکر حقوق العباد ہیں۔

قدرتی آفات، مثلاً: سیلاب و زلزلہ متاثرین کی نصرت، مصیبت اور تکلیف میں مبتلا لوگوں سے تعاون اور دیگر مسلمانوں سے اخلاقی برتاؤ بھی حقوق العباد میں شامل ہے۔ حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے ان تمام امور میں جہاں کہیں غفلت پائی جاتی ہے، اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ دنیاوی حوالے سے اپنے ذرائع معاش اور اپنی مالی حیثیت کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ جہاں کہیں کم زوری، خامی یا کوتاہی پائی جاتی ہے، اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ معاشی اعتبار سے خوش حال زندگی گزاری جا سکے۔

صنعت و حرفت اور تجارت سے وابستہ لوگ قدم قدم پر نئی سوچ اپنانے، نئے رجحانات کے مطابق کاروباری معاملات کو بہتر بنانے اور مصنوعات کا معیار مارکیٹ کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کے مطابق بلند کرنے کی کوشش کریں۔ ملازمت اور نوکری پیشہ لوگ نظام الاوقات کی پابندی کرتے ہوئے اپنی ہر صلاحیت کو بہترین انداز سے بہ روئے کار لائیں، روایتی اور معمول کے کام سے چند قدم آگے بڑھ کر سرگرمی دکھائیں اور دیانت و امانت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کریں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ گزرے سال سے سبق سیکھ کر دینی اور دنیاوی لحاظ سے غلطیوں، غفلتوں، خامیوں اور کم زوریوں کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ آئندہ سال میں اصلاح احوال کا عزم نو اور تجدید عہد کریں، تاکہ دنیا و آخرت کی کامیابی مقدر ٹھہرے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ذوالقرنین عباسی (سکالر)

مولانا ذوالقرنین عباسی مذہبی سکالر ہیں، انہیں مذہبی اور سماجی موضوعات پر لکھنا پسند ہے، گزشہ کئی برسوں سے ان کی تحریریں پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر شائع ہو رہی ہیں۔
Back to top button