معاشی بحالی، افواج پاکستان اور حکومت کے بہترین منصوبے

ٹیکنالوجی اور انڈسٹری میں ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ پاکستان کیلئے آسان نہیں تاہم زراعت کو جدید طریقوں پر استوار کر کے ہم برآمدات بڑھا سکتے ہیں

پاکستان زرعی ملک ہے، ہمارے پاس دنیا کی 11 ویں بڑی زرعی زمین موجود ہے، زمینیں زرخیز ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں غذائی ضروریات میں کمی کا سامنا ہے کیونکہ ہم قدیم طریقوں سے زراعت کر رہے ہیں جبکہ دنیا اس سے کم رقبے پر جدید طریقوں کے ذریعے زیادہ پیداوار حاصل کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال اسپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کے اجلاس میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ عرب ممالک کو لائیو سٹاک اور حلال فوڈ کیلئے گوشت کی ضرورت ہے یہ بہت بڑی مارکیٹ ہے جسے ہم پورا نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ کہ خریدار موجود ہیں مگر بیچنے والے نہیں، عرب ممالک کی حلال فوڈ کی ضروریات کو مغربی ممالک پوری کر رہے ہیں۔ اب حکومت نے اس طرف توجہ دی ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہئے اس ضمن میں لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم جدید زراعت کے فروغ کے لیے حکومت پاکستان اور پاک فوج کا احسن اقدام ہے ۔

لمز کا قیام پاکستان میں زراعت کے شعبے میں انقلاب کا باعث بنے گا، یہ پاکستان کی تاریخ میں زرعی شعبے کی ترقی کا پہلا جامع حکومتی اقدام ہے۔ جس کا بنیادی مقصد ملکی زرعی درآمدات میں کمی، برآمدات میں اضافہ اور بڑھتی آبادی کی غذائی اجناس کی ضروریات کو پورا کرنا ہے، لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم پاکستان کی فوڈ سکیورٹی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو گا، لمز کے قیام سے کسانوں کو موسمی تبدیلیوں، فصلوں کی سیٹلائٹ سے ہمہ وقت نگرانی، پانی، کھاد اور سپرے کے متوجہ علاقوں کے بارے میں معلومات بیک وقت دستیاب ہوں گی۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی معیشت میں زراعت 23 فیصد جی ڈی پی کا اضافہ کرتا ہے جبکہ 37 اعشاریہ 4 فیصد مزدوروں اور کسانوں کو نوکریاں فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے پہلے green revolution project کا آغاز 60 کی دہائی میں کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں نئی ٹیکنالوجی، نہری نظام، بیچ اور کیمیکل فرٹیلائزرز کو متعارف کروا کے اناج کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوا تھا گندم کی پیداوار میں 79 فیصد کا اضافہ ہوا، پہلے پیداوار کی مقدار 3 اعشاریہ 7 ایم ایم ٹی تھی اور green revolution کے بعد 6 اعشاریہ 8 ایم ایم ٹی ہو گئی تھی۔ اس کے موازنے میں آج ہماری زرعی پیداوار اوسط درجے سے بھی کم ہے زرعی درآمدات کی قیمتوں کا 10بلین تک پہنچ جانا ملکی معیشت کے لیے بھی بہت سے مسائل کا باعث ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 36 اعشاریہ 9 فیصد پاکستانی خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور 18 اعشاریہ 3 فیصد پاکستانی عوام کو خوراک کی کمی میں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔

آج پاکستان میں گندم کی مانگ 30 اعشاریہ 8 فیصد ملین ٹن سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ حالیہ پیداوار 26 اعشاریہ 4 فیصد ملین ٹن سے بھی کم ہے، اس کے علاوہ روئی کی پیداوار بھی پچھلے 10 سال 40 فیصد تک گر چکی ہے، ان تمام مسائل اور دشواریوں کے باعث ایسا قدم اٹھانے کی شدید ضرورت ہے جس سے جدید زرعی اور کاشت کاری کے استعمال سے 9 ہیکٹرز ضائع شدہ ملکی زمین کو دوبارہ زرخیز بنایا جائے۔

اسی سلسلے میں ڈائیریکٹر جنرل سٹریٹیجک پراجیکٹس کے زیر نگرانی لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم۔ سینٹر آف ایکسیلنس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اس انقلابی تحریک سے زمین، فصلوں، موسم، پانی کے ذخائر اور کیڑوں کی روک تھام پر ایک ہی چھت کے نیچے کام کیا جائے گا مختلف شعبوں کے ماہرین، وسائل و ذخائر، جدید ٹیکنالوجی اور آبپاشی نظام کے مناسب استعمال سے پاکستان کی زراعت میں ایسی ترقی لائی جائے گی جس سے ملک کے ہر خطے میں نا صرف خوراک کی کمی کو پورا کیا جائے گا بلکہ خوراک کی حفاظت اور ضرورت کے مطابق ذخیرہ اندوزی بھی کی جاسکے گی۔

معلومات اور تجزیات کی بنا پر مشکلات، رکاوٹوں اور چیلنجز کی نشاندہی، مناسب حل تلاش کرنے میں آسانی ہو گی، بین الاقوامی سطح پر درآمدات اور برآمدات میں اضافے اور کمی سے ملکی معیشت میں بھی بہتری آئے گی، اس پروگرام کے باعث ملک میں عوام کے لیے نوکریوں کے وسائل بھی پیدا ہوں گے، پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹیشن کونسل کا قیام بھی کر دیا گیا ہے اس کے مقاصد میں ضائع کی ہوئی اور غیر کاشت شدہ زمین کی بحالی اور استحکام عمل میں لانا ہے، ‏LIMS نے حال ہی میں جدید کاشتکاری کے متعدد پروجیکٹس کی شروعات کر دی ہے، اب تک جس زمین کی نشاندہی کر دی گئی ہے اس کی کل مقدار 4 اعشاریہ 4 ملین ایکڑ ہے جس میں سے ایک اعشاریہ 3 ملین ایکڑ پنجاب میں ہے، ایک اعشاریہ 3 ملین ایکڑ سندھ میں، 1.1 ملین ایکڑ خیبرپختونخوا میں اور صفر اعشاریہ 7 ملین ایکڑ بلوچستان میں موجود ہے۔

دنیا بھر میں 80 فیصد ہائبرڈ بیچوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے پیداوار میں 30 سے 50 فیصد اضافہ ہوتا ہے، پاکستان میں حالیہ 8 فیصد فیصد ہائبرڈ بیچ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بیچوں کی ضرورت ایک اعشاریہ 7 ملین ٹن ہے جبکہ بیچوں کی موجود مقدار صفر اعشاریہ 77 ملین ٹن ہے۔

کوششیں کی جا رہی ہیں کہ تھر، تھل اور کچی کنال میں نہری پروجیکٹس میں تیزی سے کام ختم کیا جائے، سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئی کنالیں بنائی جائیں اور اس کے علاوہ جدید آبپاشی کی ٹیکنیکس جیسا کہ ماڈیولر ڈرپ آبپاشی، سپرنکلر آبپاشی اور محور آبپاشی کا استعمال عمل میں لایا جائے۔

سعودی عرب، چائنہ، متحدہ عرب امارت، قطر اور بحرین کے ساتھ بہت سے منصوبوں میں شراکت داری کی جا رہی ہے جس سے پاکستان کے برآمدات میں یقینی اضافہ ہو گا۔ فِن لینڈ بھی بیچوں، جنگلات اور جنگلی حیاتیات کے پراجیکٹس پر کام کر رہا ہے، مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کے شعبوں میں زراعت، فصل، گندم، روئی، چاول، سورج مکھی، پھل، پولٹری، سولر سسٹم اور ہوائی انرجی شامل ہیں پاکستان کے پاس دنیا کی گیارویں سب سے بڑی زرعی زمین ہے جس کا کل رقبہ 79 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 24 اعشاریہ ایک ملین ایکڑ کاشت شدہ ہے اور 9 اعشاریہ ایک ملین ایکڑ قابل کاشت زمین خالی موجود ہے۔ ہم پہلے مرحلے میں زراعت جبکہ دوسرے مرحلے میں برآمدات کو بڑھا کر ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سید ذیشان علی کاظمی

سید ذیشان علی کاظمی صحافی ہیں، وہ گزشتہ 15 برسوں سے حالات حاضرہ، سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر لکھ رہے ہیں اس ای میل ایڈریس zeshansyedkazmi@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button