اخلاقی پستیاں جو سماج کا حصہ بن چکی ہیں
اپنے بچپن سے یہ دیکھتے، سنتے اور مشاہدہ کرتے آئے تھے کہ جہاں کہیں کوئی عوامی مقام مثلاً گاڑیوں کی انتظار گاہ، راہ گیروں اور بوجھ کندھوں پر لانے اور لے جانے والوں کیلئے آرام کی جگہ، بڑے بوڑھوں یا نوجوانوں کی گپ شپ کے لیے اکٹھے ہونے کی جگہ ہو وہاں بغیر کسی تنظیم یا حکومتی مدد کے ازخود اپنی مدد آپ کے تحت مٹی کا پانی کا بڑا سا مٹکا رکھ دیا جاتا اور وہاں رکنے والوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے ایک عارضی اوٹ سی قائم کر دی جاتی تھی۔
راہگیر مٹکے کے ٹھنڈے پانی سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ دیر اس اوٹ کی چھائوں میں بیٹھ کر کچھ دیر سستا لیا کرتے جس سے ان کی تھکاوٹ تھوڑی دور ہو جایا کرتی تھی۔ اس مٹکے کو روزانہ کی بنیاد پر پانی سے بھرنے اور اس عارضی اوٹ کی صفائی ستھرائی کا انتظام بھی اپنی مدد آپ کے تحت کوئی نہ کوئی کر دیا کر دیا کرتا تھا۔
پھر ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے بعد مٹکوں کی جگہ کولرز نے لے لی۔ بڑے شہروں میں کولرز کی جگہ الیکٹرک ڈسپنسرز لگا دیے گئے۔ تاہم عوامی مقامات پر شہریوں کو پانی کی فراہمی کی روایت برقرار رہی۔ علاوہ ازیں پبلک مقامات پر باتھ رومز متعارف کرائے گئے۔ اول تو یہ مفت سہولت تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب ان باتھ رومزکی صفائی ستھرائی کے مسائل پیدا ہوئے تو اس مقصد کے لیے وہاں بندہ تعینات کر دیا گیا جس کی تنخواہ وغیرہ کے اخراجات کے لیے باتھ روم استعمال کرنے والوں سے چند روپے کی معمولی سی رقم وصول کی جانے لگی۔
بعدازاں آبادی میں اضافے کے ساتھ کچھ لوکوں نے اسے کاروبار کے طور پر اپنا لیا۔ انہوں نے پبلک مقامات کے قریب باتھ رومز تعمیر کر کے اپنے بندے وہاں تعینات کر دیے جو باتھ رومز استعمال کرنے والوں سے پیسے بٹورتے۔ ان افراد کی جانب سے ایک چال یہ چلی گئی کہ وہ اپنے کل دس باتھ روم میں سے چھ کو لاک لگا دیتے۔ رش کے دوران جب لوگ اصرار کرتے کہ لاک شدہ باتھ رومز کھولے جائیں تاکہ وہ انہیں استعمال کریں تو ان لوگوں کی جانب سے کہا جاتا کہ نہیں وہ خصوصی افراد کے لیے ہیں اور ان کے چارجز دگنا ہیں۔ تو جو لوگ انتظار کی پوزیشن میں نہ ہوتے وہ مجبوراً دگنا ادائیگی کر کے ان باتھ رومز کو استعمال کرتے۔
اخلاقی پستی کی ایک بدترین مثال اسلام آباد ،لاہور موٹروے پر سفر کے دوران سامنے آئی۔ ڈرائیور نے کوسٹر کو موٹروے کے ایک لش پش ہوٹل کے سامنے روک دیا۔ کوسٹر کی تقریباً تمام سواریاں متوسط طبقے سے دکھائی دیتی تھیں۔ دھوپ کی شدت بہت تیز تھی لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ ہوٹل کا سٹرکچر ایسا ڈیزائن کیا گیا تھا کہ وہاں کوئی ایسی اوٹ نہیں تھی جس کے سائے میں کھڑا ہوا جا سکے۔ ایسی صورت میں دو ہی آپشن بچتے تھے کہ یا تو سلگتی گاڑی میں بیٹھا رہا جائے یا پھر ہوٹل کے اندر جائے۔
طویل سفر کے دوران راستے میں قیام پر گاڑی سے اترنے کے بعد پینے کا پانی اور باتھ روم کا استعمال مسافروں کی ترجیحات ہوتی ہیں۔ لیکن ہوٹل میں تلاش بسیار کے بعد جب پانی نامی چیز کا کہیں سراغ نہ ملا تو عملے کے ایک شخص سے معلوم کرنے پر انکشاف ہوا کہ یہاں کھلے پانی کا استعمال نہیں ہوتا، اگر آپ کو پانی کی طلب ہے تو کینٹین سے حاصل کر سکتے ہیں۔ مجبوراً کینٹین کا رخ کیا تو پچاس روپے کی پانی کی بوتل کے سو روپے وصول کیے جس کے بعد ساری گیم سمجھ آ گئی۔
ایک شخص جو جلدی میں وضو کر کے آیا تھا اور ہوٹل کے اندر نماز کی جگہ جا کر سفری نمازی ادا کرنا چاہتا تھا اسے ہوٹل کے عملے کی جانب سے کہا گیا کہ آپ باہر جا کر نماز ادا کریں۔ اس نے استفسار کیا کہ کیوں؟ یہ بھی تو نماز ہی کی جگہ ہے؟ عملے نے بتایا کہ یہ جگہ صرف کسٹمرز کے نماز پڑھنے کے لیے ہے۔ ان تمام حالات و واقعات کے پیمانے پر ہم اپنی اخلاقی پستی کو جانچیں کہ ہم اخلاقیات کے کس درجے پر ہیں۔ ایسے میں کیسے ہم رحمتوں کے متحمل ہو سکتے اور اس کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔