وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی اہم سفارتی کامیابیاں

انسان جس ماحول میں پروان چڑھتا ہے اس کا رنگ شخصیت پر غالب رہتا ہے، ایک عام انسان عملی زندگی میں برسوں کھپانے کے بعد جو چیز بمشکل سیکھ پاتا ہے ماحول میں رہ کر وہی چیز بچے کم عمری میں ہی آسانی سے سیکھ لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ عملی طور پر دیکھا ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو نے جس ماحول میں تربیت پائی ہے وہ مکمل سیاسی تھا، ان کی والدہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو جب امور سلطنت اور سیاسی معاملات کو نبھاتیں تو بچے موجود ہوتے تھے،بچے اپنے آس پاس جو دیکھتے ہیں وہ عمر بھر کیلئے ان کے لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے،بلاول بھٹو کی تربیت بطور فرد نہیں بطور شخصیت کے ہوئی ہے، بلاول بھٹو نے سیاسی زندگی میں قدم بعد میں رکھا سیاسی تربیت بہت پہلے پائی، جو چیز ورثے میں ملتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ بلاول بھٹو کو بھی سیاست ورثے میں ملی ہے، اس لئے انہوں نے جب وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا تو انہیں بخوبی معلوم تھا کہ سفارتی سطح پر پاکستان کو کن چیلنجز کا سامنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اپریل 2022ء میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو اتحادی حکومت کے سامنے مسائل کا پہاڑ تھا۔ مالی بحران اور خارجہ تعلقات کی بحالی سب سے بڑا چیلنج تھا۔ خارجہ تعلقات کو مضبوط کئے بغیر چونکہ معاشی بحران پر قابو پانا آسان کام نہیں تھا اس لئے وزیر خارجہ کیلئے بلاول بھٹو کا انتخاب کیا گیا، 27 اپریل کو بلاول بھٹو نے وفاقی وزیر کا حلف اٹھایا۔ وزارت خارجہ کا قلمدان سونپے جانے کے بعد بلاول بھٹو نے آرام کرنے کی بجائے ہنگامی بنیادوں پر غیر ملکی دورے شروع کر دیئے، متحدہ امارات، چین، امریکہ سوئزر لینڈ، ترکی، ایران، بھارت سمیت کئی ممالک کے کامیاب دورے کئے۔ بلاول بھٹو کے پیش نظر نہ صرف سفارتی سطح پر تعلقات کو بحال کرنا تھا بلکہ انہوں نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے بھی راہ ہموار کی، وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے دورہ چین کے بعد چین کی طرف سے 2 اعشاریہ3 ارب ڈالر کی ری فنانسنگ کی گئی اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بلاول بھٹو کی کوششوں کا اعتراف بھی کیا تھا۔ بلاول بھٹو نے جس انداز میں دنیا کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا عالمی برادری ان کی خداداد صلاحیتوں کی معترف ہو گئی۔

بلاول بھٹو وزیر خارجہ بنے تو ان کی عمر 34برس تھی، انہیں پاکستان کے کم عمر ترین وزیر خارجہ بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ان کے نانا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے 35 برس کی عمر میں وزارت خارجہ کا عہدہ سنبھالا تھا، دونوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے، بلاول بھٹو کی اپنے نانا سے محض اتفاقیہ مماثلت نہیں بلکہ فہم و تدبر، علم و دانش میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے ذوالفقار علی بھٹو کے بطور وزیر خارجہ اقدامات نے پاکستان کی تاریخ پر دور رس اثرات کئے۔ بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ جو اقدامات اٹھا رہے ہیں اس کے بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بلاول بھٹو کو پارٹی کی قیادت سونپی گئی تب ان کی عمر محض 19 برس تھی، پارٹی چیئرمین سے لیکر اب تک وزیر خارجہ بننے تک بلاول بھٹو کے فیصلوں میں سنجیدگی، متانت اور تحمل و شائستگی کو نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

بلاول بھٹو نے اگرچہ اپنے والد آصف زرداری سے سیاسی اسرار و رموز سیکھے ہیں، تاہم ان کی شخصیت میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی سیاست کے رنگ کا غالب ہے۔ ان کے فیصلوں میں جمہوریت پر یقین، آئین کی بالادستی اور ملکی مفاد میں دور اندیشی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بلاول بھٹو کی تمام تر تعلیم برطانیہ میں ہوئی ہے اس لئے وہ مغربی ممالک کے مزاج کو بخوبی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بہترین انداز میں پاکستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلوانے میں دراصل بلاول بھٹو کی خارجہ سطح پر سفارت کاری کیلئے کی جانے والی کوششیں ہیں۔ بلاول بھٹو نے جن ممالک کا دورہ کیا وہاں مسئلہ کشمیر کو ضرور بیان کیا، حتیٰ کہ 4 مئی کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کیلئے بلاول بھٹو بھارت پہنچے تو انہوں نے وہاں پر بھی عالمی فورم پر نہایت جرات کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو بیان کیا، حالانکہ بھارتی وزیر خارجہ نے میزبانی کے تمام اصولوں کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان پر حقائق کے منفافی الزامات لگائے اس کے باوجود بلاول بھٹو نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور بھارتی وزیر خارجہ کی غیر شائستہ گفتگو کا شائستہ انداز میں جواب دیا۔ بلاول بھٹو نے دورہ بھارت میں جس سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کیا اسے پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تمام حلقوں میں خوب سراہا گیا۔

سیلاب 2022 سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تو بلاول بھٹو نے سفارتی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اصل ذمہ داروں کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا کہ اگر آج پاکستان سیلاب سے متاثر ہوا ہے تو کل کوئی دوسرا ملک بھی سیلاب کی زد میں آ سکتا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو، وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دنیا کے سامنے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے اعداد و شمار اور پاکستان کو ہونے والے مالی نقصان سے آگاہ کرنے کیلئے ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ وزارت خارجہ کی محنت سے 40 ممالک، نجی ڈونرز اور عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندون نے ڈونر کانفرنس میں شرکت کی، عالمی برادری کی طرف سے سیلاب سے ہونے والے نقصان کے ازالے اور بحالی کے منصوبون کیلئے تقریباً 10 ارب ڈالر امداد کے وعدے کئے گئے، جو پاکستان کیلئے بہت بڑی کامیابی ہے۔ بلاول بھٹو کی بطور وزیر خارجہ کئی کامیابیاں ہیں مگر اتحادی حکومت میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اور ملک کے لئے مشترکہ حکمت عملی کو ان کی اہم کامیابی تصور کیا جا رہا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے مشترکہ کوششوں سے خارجہ تعلقات کو جس سطح پر پہنچا دیا ہے آنے والے وقت میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے نہایت قلیل مدت میں بہت زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں، سیاسی معاملات پر ان کی دور اندیشی اور فیصلوں کی بنا پر کہا جا سکتاہے کہ اگلے وزیر اعظم کیلئے بلاول بھٹو موزوں ترین شخصیت ہوں گے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button