چائنہ کے ناقص مال کیلئے پاکستان پُرکشش مارکیٹ کیسے؟
چین کا سستا مال پاکستان کی مقامی مارکیٹ کو تقریباً کھا چکا ہے، پاکستانی تاجر مینوفیکچرنگ پر توجہ دینے کی بجائے چینی مال کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ اس سے محنت کم اور فائدہ زیادہ حاصل ہوتا ہے، پاکستانی تاجر اور چینی مینوفیکچرر کے اس گٹھ جوڑ سے پاکستان کی کوئی مارکیٹ غیر معیاری اور ناقص چینی مصنوعات سے خالی نہیں ہے۔
چین پوری دنیا کو اپنی مصنوعات فراہم کرتا ہے، ترقی یافتہ ممالک کی مارکیٹس چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں، امریکہ جیسی سپر پاور بھی چین میں اپنے کارخانے لگانے پر مجبور ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگلے کچھ برسوں میں دنیا کی معیشت میڈاِن چائنہ کے شکنجے میں ہو گی۔ چین ہر ملک کی ڈیمانڈ پر اور وہاں کے صارفین کی قوت خرید کو سامنے رکھتے ہوئے مصنوعات بناتا ہے۔ آپ یورپی ممالک یا عرب ممالک جائیں تو وہاں بھی چینی مصنوعات کی بھرمار ہو گی لیکن معیار سے واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کی حکومتیں ناقص مصنوعات کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی ناقص اشیاء کی درآمد کی اجازت ہے۔
اس کے برعکس پاکستانی مارکیٹ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا جہاں کی غیر معیاری اشیا کیلئے جیسے یہ موزوں ترین جگہ ہے، یہاں معیار کے حوالے سے نہ حکومتی سطح پر کوئی پوچھ گچھ ہے اور نہ ہی ہمارے تاجر اس تردد میں پڑتے ہیں تاجر اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جائے۔
پاکستانی تاجروں میں یہ بات مشہور ہے کہ جتنی لاگت میں وہ کوئی چیز تیار کرتے ہیں اس سے آدھی لاگت میں چینی فیکٹریاں فوری آرڈر پر سامان دینے کیلئے تیار ہوتی ہیں، پاکستانی تاجروں کی اس سوچ نے مقامی مارکیٹ تباہ کر دی ہے۔ جس کا نقصان عوام اور ملک کو ہو رہا ہے، نہ پاکستانی تاجر خسارے میں ہے اور نہ چینی تاجر۔ خسارے میں صارفین ہیں جنہیں غیر معیاری مصنوعات تھما دی جاتی ہیں۔ تاجر اس لئے خسارے میں نہیں کیونکہ وہ اپنا مارجن رکھ کر آگے ہول سیل پر سامان فروخت کرتا ہے مارکیٹ میں پہنچتے پہنچتے وہ سامان کئی گنا مہنگا ہو چکا ہوتا ہے۔ چینی تاجر اس لئے خسارے میں نہیں کہ وہ مینوفیکچرر ہے اور سب سے زیادہ فائدہ مینوفیکچرر کو ہوتا ہے۔ صارف اس لئے خسارے میں رہتا ہے کہ غیر معیاری چیز چند روز چلتی ہے یوں اسے دوبارہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔
چند روز پہلے بچوں کے لئے 25 ہزار روپے کی چائنہ کی امپورٹڈ سائیکل لائے، دو دن بعد ہی ہینڈل کے بیرنگ خراب ہو گئے، مرمت کیلئے کاریگر کے پاس گئے تو اس نے ایک ہزار روپے کا خرچہ بتایا، ہم اس لئے حیرت زدہ تھے کہ ابھی دو روز پہلے ہی تو بازار سے نئی سائیکل لے کر آئے ہیں۔ فوراً اس دکاندار سے رابطہ کیا جہاں سے سائیکل لی تھی، اسے صورتحال سے آگاہ کیا تو کہنے لگے کہ آپ سائیکل کو ہماری دکان پر لے آئیں ٹھیک کر دیں گے۔ دکان مین بازار میں ہے وہاں گاڑی پر جانے اور آنے کا خرچہ 12 سو روپے بنتا تھا سو بادل نخواستہ گھر کے قریب کاریگر کو اپنی جیب سے ایک ہزار روپے ادا کئے اور سائیکل ٹھیک کروا کر بچوں کے حوالے کر دی۔ ایک ہفتہ بعد سائیکل کا ٹائر پنکچر ہو گیا، ہم سمجھے کہ کوئی کانٹا چبھنے سے سائیکل پنکچر ہوئی ہے، پنکچر لگوا کو گھر آئے تو فوری ہوا نکل گئی۔ انہی قدموں دوبارہ پنکچر والے کے پاس گئے تو وہ صاحب بولے کہ چائنہ کی امپورٹڈ سائیکلوں میں جو آج کل ٹائر ٹیوب لگائی جا رہی ہیں ان پر پنکچر ٹھہرتا نہیں ہے۔ عرض کیا کہ بھائی یہی بات آپ پنکچر لگانے سے پہلے بتا دیتے تو ہمارا وقت اور پیسہ ضائع نہ ہوتا لیکن یہاں شاید صارفین کے نہ حقوق ہیں اور نہ ہی انہیں نقصان سے بچانے کیلئے کوئی مشورہ دیا جاتا ہے۔
دکاندار نے انکشاف کیا کہ آپ جس پریشانی سے دوچار ہیں میرے ساتھ آئیں میں آپ کو کچھ دکھاتا ہوں، انہوں نے ٹائر ٹیوب کا ایک ڈھیر دکھایا، اور بولے کہ یہ چائنہ سے جو سائیکلیں آ رہی ہیں ان میں کمپنی فٹ کر کے دیتی ہے اور جب سائیکل بار بار پنکچر ہوتی ہے تو والدین یہاں پاکستانی ٹائر ٹیوب لگوا لیتے ہیں جو معیار میں اچھے ہوتے ہیں۔ دونوں ٹائر ٹیوب کا خرچہ پوچھا تو بتایا کہ 4 ہزار روپے۔ مطلب یہ کہ 25 ہزار کی سائیکل آئی اور پانچ ہزار روپے اس پر مزید خرچہ کرنا پڑ گیا۔ کمپنی تو جہاں جہاں سے بچت کر سکتی ہے وہ ایسا کرے گی لیکن کیا چین سے پاکستان آنے والے سامان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، کیا کوالٹی چیک کا کوئی میکنزم نہیں ہے، کیا ریاست نے کروڑوں عوام کو بے رحم اور پیسے کے پجاری تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، صرف سائیکل پر ہی کیا موقوف چین سے آنے والی ہر چیز کا یہی حال ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ چین ناقص اور غیر معیاری مصنوعات بناتا ہے، چین امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی مصنوعات فراہم کر رہا ہے لیکن ان کے معیار کی جبکہ ہمیں ہمارے معیار کے سستی مصنوعات فراہم کرتا ہے۔ چین کی دیکھا دیکھی اب پاکستان میں بھی ویسی ہی غیر معیاری مصنوعات بننے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کوئی ملک بھی پاکستان کی مصنوعات کا خریدار نہیں ہے، کوالٹی کو بہتر کئے بغیر کوئی بھی ملک اپنی مصنوعات کو کسی دوسرے ملک میں برآمد نہیں کر سکتا ہے یہ صرف چین کو اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان جیسا ملک اس کی غیر معیاری اور ناقص مصنوعات کو ہاتھوں ہاتھ لینے پر بخوشی تیار ہوتا ہے۔
ہمیں ترکیہ سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ہمارے پڑوس میں چین ہے جبکہ ترکیہ کے پڑوس میں یورپ۔ ترکیہ نے ہر سطح پر یورپی ممالک کا مقابلہ کیا ہے، الیکٹرونکس کی مصنوعات حتیٰ کہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ گاڑیاں ترکیہ بنا رہا ہے، اور کئی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ترکیہ کی مصنوعات کے آؤٹ لیٹس بن چکے ہیں۔ ترکیہ فرنیچر، کاغذ اور جنگلات کی مصنوعات کی برآمدات سے سالانہ اربوں ڈالر کما رہا ہے، ترکیہ کے اعلیٰ معیار اور اس سے ہونے والی آمدن کا اندازہ ذیل کی مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترکیہ کے کلائنٹ کونسے ممالک ہیں۔ پچھلے پانچ ماہ کے دوران ترکیہ نے برطانیہ کو 169 ملین ڈالر جبکہ اسی عرصہ کے دوران جرمنی کو 147 ملین ڈالر کی فرنیچر، کاغذ اور جنگلات کی مصنوعات برآمد کیں۔ امریکہ اور فرانس جیسا ملک بھی ترکیہ کی مصنوعات خریدنے پر مجبور ہے، پچھلے پانچ ماہ میں امریکہ نے ترکیہ سے 116 جبکہ فرانس نے 104 ملین ڈالر کی برآمدات کی ہیں،ٹرکش ایکسپورٹرز اسمبلی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں ترکیہ برآمدات 254 بلین ڈالر سے زائد ہیں۔
مذکورہ اعداد و شمار پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ترکیہ نے ایک طرف یورپ کا مقابلہ کیا جبکہ دوسری طرف اعلیٰ معیار کی بنیاد پر عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائی ہے، اس کے برعکس ہم نے اپنے پڑوسی ملک چین سے کیا سیکھا ہے؟ چین کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات الٹا ہم ہر چیز میں چین کے محتاج ہو گئے ہیں۔ اس کا اندازہ دوطرفہ تجارتی حجم سے لگایا جا سکتا ہے۔ پاک چین تجارتی حجم 20 ارب ڈالر سالانہ ہے، پچھلے سال 2022 کے آخر تک چین نے پاکستان کو 17 ارب ڈالر کی درآمدآت کی ہیں جبکہ پاکستان 2 ارب ڈالر سے بھی کم کی مصنوعات چین کو برآمد کر سکا۔ مطلب یہ کہ ہم چین کے صرف خریدار ہیں، اور خریدار بھی ایسے کہ جو سامان دنیا کا کوئی ملک لینے کیلئے تیار نہیں ہوتا وہ سامان ہمارے تاجر خوشی سے اور ایڈوانس پیمنٹ کر کے خریدتے ہیں۔
گوادر بندرگاہ سے 2016 میں چینی سامان پر مشتمل سو ٹرکوں کا پہلا قافلہ یورپ کو روانہ کیا گیا تھا اس وقت کچھ حلقوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا چینی ٹرک پاکستان سے خالی واپس جائیں گے؟ اگر ہماری ورکنگ ہوتی تو چینی ٹرک پاکستانی مصنوعات سے بھر کر واپس جاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ 2030گوادر بندرگاہ کی تکمیل کا سال ہے یہ ہماری سرزمین پر قائم ہے اس کا اصل فائدہ ہمیں ہونا چاہئے، اگر ہم نے پاکستانی مصنوعات پر توجہ نہ دی تو صورتحال یہ ہو گی کہ گوادر بندرگاہ کے آپریشنل ہونے کے بعد بھی ہمیں خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہوں گے۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کوشاں ہے امید ہے پاکستانی مصنوعات پر بھی توجہ دی جائے گی۔