امتحانی مراکز میں نقل کے رحجانات میں اضافہ، سدباب کیسے کیا جائے؟

ہر حکومت کے خوش آئند اعلانات اور محکمہ تعلیم کے افسران بالا کی پوری پوری یقین دہانی کے باوجود ہمارے ملک میں امتحانی مراکز میں نقل کرنے کا رحجان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہمارے نظام تعلیم کی یہ رسوا کن صورت حال نہ صرف اندرون ملک ارباب علم و دانش کا موضوع سُخن بنی ہوئی ہے بلکہ اس کا چرچا بیرونی ممالک میں بھی ہونے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک میں ہماری یونیورسٹیوں کی عطا کردہ اسناد کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے یا ملازمت کے حصول کے لئے جانے والے تارکین وطن  کو اُن کا امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ اگر امتحان میں نقل کے امکانات ہوں یا سفارش کی بناء پر  نوکریاں ملنے لگیں اور جب نااہل لوگ کسی عہدے پر فائز ہوں گے تو سرکاری یا نجی شعبے کی کارکردگی کیسے تسلی بخش ہوسکے گی؟

 

ایک وہ زمانہ تھا جب علم حاصل کرنا مشکل اور کٹھن کام تھا۔ نہ تعلیم حاصل کرنے کا رواج تھا  اور نہ حصول علم کے ذرائع موجود تھے۔ چھاپہ خانہ نہ ہونے کے باعث کتابیں ناپید تھیں اگر کہیں ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں موجود تھیں تو انہیں خریدنا عام آدمی کے بس کا روگ نہیں تھا۔ صرف اساتذہ کے لکھوائے گئے نوٹس ہی طالب علم کا کل علمی سرمایہ ہوتے تھے۔

امام غزالیؒ جب تحصیل علم کے بعد بغداد سے گھر واپس آرہے تھے تو راستے میں ڈاکوؤں نے اہل قافلہ کو لوٹ لیا۔ امام غزالی اپنی لوٹی ہوئی رقم کے لئے تو ڈاکووں کے سردار کے پاس نہ گئے لیکن اپنے نوٹس کی واپسی کی درخواست لے کر اس سردار کے پاس گئے کیونکہ یہ ان کی سالہا سال کی محنت کا ثمر تھا۔

رفتہ رفتہ انسان نے تہذیب و تمدن مین ترقی کی اور ہرشخص کے لئے زیور تعلیم سے آراستہ ہونا لازم شمار کیا جانےلگا۔ چنانچہ جب سے تعلیم، متعلم اورمعلم کی تثلیث بننے لگی ہے تو اس کے نتیجے میں تعلیم کا رواج  عام ہوا۔ یہ دیکھنے  کے لئے کہ شاگرد نے استاد کے علم سے کہاں تک فيض حاصل کیا ہے ، جانچ پڑتال کا آغاز ہوا۔ پھر اس طرح تعلیم کے فروغ کے لئے مدرسے قائم کئے گئے، اساتذہ کو تربیت دی گئی اور تدریسی نصاب مقرر کیا گیا۔

قومی نصاب کو ترتیب دیتے وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت اس کے خصوصی اور عمومی مقاصد میں ایک اہم مقصد کی نشان دہی کرنا شاید بھول گئی کہ اس نصاب کا مقصد لکھنے اورپڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا احترام کرنا بھی سب پر واجب ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل امتحانی ہال سے نکلنے کے بعد جس بے حرمتی سے کتابوں کے صفحات کو قدموں تلے روندتے اور ہوا میں اُڑاتے ہوئے  جو فخر محسوس کرتے ہیں اُس کو لفظوں مین تو بیان نہیں کیا جا سکتا البتہ دل خون کے آنسو ضرور روتا ہے کہ یہ اقبال کے شاہین آخر کر کیا رہے ہیں؟

امتحان ختم ہونے کی خوشی کا یہ انداز یقینا معیوب ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔اس صورتحال کو دیکھ کر وہ واقعہ یاد آجاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ عبدالملک بن مروانؒ سے  ایک سکہ کنویں میں گرگیا تھا۔ جس کو نکالنے کے لئے انہوں نے مزدور کو بلایا اور 13 دینار کے عوض وہ سکہ نکال لیا۔ خلیفہ عبدالملک بن مروانؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایک سکہ نکالنے کے لئے اتنی بھاری قیمت کیوں ادا کی؟ تو انہوں نے جواب  دیا  کہ اُس ایک سکے پر اللہ جل شانہ کا نام نامی اسم گرامی لکھا ہوا تھا۔

اس کے برعکس ہمارے طلبہ جس بے دردی سے کتابوں کو چپر پھاڑ کر اُن متبرک صفحات جن پر قرآنی آیات  واحادیث یا اللہ کریم اور اُس کے رسولؐ مکرم کے نام تحریرہو اُن کو پاوں تلے یا جوتوں میں چھپا کر جس بے حسی وخود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ طلبہ حصول علم کے اصل مقصد سے قطعی طور پر بےخبر ہیں اور اگر بے خبرنہ بھی ہوں تو دانستہ طور پر نصاب کی بے حرمتی کرنا ان کی عادت بن چکی ہے۔ سارا سال محنت سے جی چرانے والے یہی طلبہ امتحانات سر پر آنے کے بعد شدید قسم کی بے چینی کا شکار ہوتے ہیں۔ طلبہ کی اسی نفسیات کو اردو ادب کے عظیم مزاح نگار پطرس بخاری نے اپنے مضامین "ہاسٹل میں پڑھنا ” اور "سویرے جو کل آنکھ میری کھلی” میں ہمارے سامنے خوب عیاں کیا ہے۔ اسی قبیل کے طلبہ محنت کرنے کے بجائے کمرہ امتحان میں کچھ سہولتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اچھے نمبر حاصل کرسکیں۔

اگر پرچے میں کوئی ایسا سوال پوچھا گیا ہو جس کا جواب ان کے پاس موجود نہ ہو تو باہر سے کوئی دوست عزیز انہیں پہنچا دیتا ہے۔ نقل کے لئے مواد فراہم کرنے کا دوسرا بڑاذریعہ خود امتحانی عملہ بھی ہے۔ جو میل ملاپ اور اثر ور سوخ سے یا کچھ لے دے کر یہ کا ر خیر انجام دیتا ہے ۔ ایسا کرنے کی وجہ بھی شاید ہمارے معماران قوم کی معاشی بدحالی ہے۔ اس روز افزوں مہنگائی کے دور میں اُن کے لئے اہل خانہ کی بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی وہ بھی اس معاشی لوٹ کھسوٹ میں اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔ ” کتبہ ” کے "شریف حسین” کی طرح وہ بھی روشن مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں اور جب انہیں کسی طرف سے معقول پیش کش ہوتی ہے تو کفران نعمت نہیں کرتے۔

پہلے  پہل ضمیر ملامت  بھی کرلے تو کوئی پروا نہیں لیکن بعد میں ضمیر ابدی نیند سو جاتا ہے اور یہی بددیانتی ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔ کچھ اس وجہ سے بھی اساتذہ یا امتحانی عملہ اس ناجائزہ کام پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جب کسی وزیر ، ایم این اے، ایم پی اے، کا چشم و چراغ امتحان دے رہا ہوتا ہے اور اگر ممتحن اس کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو ایسے افراد کا تبادلہ کسی ایسی جگہ پر کرديا جاتا ہے جہاں پر اسے زیادہ ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا  پڑے ۔ آخر کار  اس محکمے میں رہنا اور ترقیوں کا انحصار انہی افسران بالا  کی خوشنودی پر ہوتا ہے۔

نقل کے رحجانات کو فروغ دینے  مین والدین بھی بڑا اہم  کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین اپنے نازک مزاج اور کام چور بچوں کو ڈگریاں دلوانے کے لئے پیسا  پانی کی طرح بہانا اپنا فريضہ سمجھتے ہیں کبھی باہر سے پرچہ حل کرکے کمرہ امتحان میں پہنچایا جاتا ہے۔  تو کبھی نمبروں کے اندراج میں  ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔ امتحانات تحریری ہوں یا پریکٹیکل ہوں طالب علم سے زیادہ ان کے والدین سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔ اگر دیانت داری سے سو چا جائے اور ہم سب اپنا محاسبہ کریں تو یقینا شرمندگی ہوگی کہ یہ سند یا ڈگری طالب علم کے لئے ایک بے کار ٹکڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور والدین نے بھی ولا تعاونوا علی الاثم  کو قابل توجہ نہ سمجھا سوچا جائے تو ایسے طالب علم جنہوں نے نقل اور بدیانتی کرکے ڈگریاں حاصل کی ہیں ملک و قوم کے کسی کام کے نہیں بلکہ ان کا یہ تعلیمی عمل خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ دوسرے ممالک ہمارے تعلیمی اداروں کی سندیا ڈگری کو تسلیم نہیں کرتے ۔پاکستان سے امریکہ یا یورپ جانے والے شخص کو وہاں کی یونیورسٹی سے دوبارہ امتحان پاس کرنا پڑتا ہے تب اس کو ملازمت ملتی ہے ۔ بچے کی تعلیمی بہتری کا جائزہ لینے کی ذمہ داری والدین اور اساتذہ دونوں پر عائد ہوتی ہے۔

اگر والدین ہر مہینے بچوں کی تعلیمی حالت کا ریکارڈ چیک کریں تو طلبہ میں بھی والدین کے خوف کی وجہ سے پڑھائی میں رغبت پیدا ہوگی اور وہ محتاط رہیں گے لہٰذا بچوں کی تعلیم وتربیت میں والدین اور اساتذہ کرام کا اشتراک ضروری ہے۔ نصاب کو ازسرنو متوازن طریقے سے ترتیب دینا بھی ضروری ہے۔ اکثر طلبہ کو ایسے مضامین پڑھنے پڑجاتے ہیں۔ جو ان کے طبعی رحجانات کےبالکل برعکس ہوتے ہیں ایسےمیں کامیابی ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مایوسی کا شکار ہوجائیں بلکہ اُسے اپنے حالات اور محنت کا جائزہ لینا چائیے اور جس جگہ کوئی کمی نظر آئے اُسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نوجوان نسل عزم و ہمت کے پیکر ہوتے ہیں بس اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا جانتے ہوں تو  نہ صرف ان کی زندگی پُرمسرت ہوگی بلکہ قوم بھی ترقی کے راستے پر گا م زن ہو سکے گی۔ بقول اقبال

نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُرسوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button