آب زم زم کنواں: ڈول سے جدید موٹر پمپس کا سفر

جزائر عرب کے بارے میں محققین ارضیات و ماہر آثار قدیمہ کے ماہرین آج جان چکے ہیں کہ لاکھوں برس کی قدیم تہذیبوں کا گہوارہ یہ خطہ کبھی دریاؤں و سر سبزے کا شاہکار ہوتا تھا، مرور زمانہ نے اس خطے کو یہاں خشک پہاڑوں و صحرا میں بدل دیا، موضوع میرا اس وقت سعودی عرب میں ارض مقدسہ کعبۃ اللہ میں ایک تاریخی کنواں ہے، جو کبھی پہلے چشمہ ہوا کرتا تھا، یہ چشمہ جو آج کنویں کی شکل میں موجود ہے بلکہ آج یہ ایک بہترین Escade system water plant کی صورت میں انتہائی منظم صورت میں موجود ہے۔

یہ پروجیکٹ، جو "ESCADA مانیٹرنگ اور کنٹرول سسٹم کے تابع ہے، اس کا مکمل انتظام ایک عمارت پر مشتمل ہے، جو 752 مربع میٹر کے رقبے پر واقع ہے، اور پانی کے انسانی صحت کے مطابق رکھنے کے لئے جدید ترین مشینوں اور آلات سے لیس لیبارٹری، ایک مخصوص تکنیکی عملے پر مشتمل ٹیم، خام پانی کے پمپس کے لیے ایک کمرے کے علاوہ جو رینفورسڈ کنکریٹ اور بلاکس سے بنے ہیں، اور اس میں تین واٹر پمپ شامل ہیں، دو روزانہ آپریشن کے لیے اور ایک بیک اپ کے لیے موجود ہے، ریزروائر”، پروجیکٹ کے حصوں میں سے ایک، ایک پیوریفیکیشن اسٹیشن اور ایک پمپنگ اسٹیشن پر مشتمل ہے، جس میں 10000کیوبک میٹر ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، جبکہ مرکزی گودام کے طول و عرض میں بیالیسبائی اٹھاون میٹر ہے جس کی اونچائی 34 میٹر ہے۔ اور یہ 1.5 ملین کیوبک میٹر پانی سٹوریج کی گنجائش کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ ایک جدید اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعے خود کار نظام ہے، اس منصوبے کو "خودکار اسٹوریج ” "ASRS کہا جاتا ہے، اسوقت یہ دنیا کے جدید ترین بین الاقوامی سٹوریج سسٹمز کے مطابق مرکزی اسٹوریج کے اسٹینڈرڈ پر ہے۔

مکہ مکرمہ میں زمزم کے کنوئیں سے پانی نکلنے کا سلسلہ سیکنڑوں برس سے جاری ہے۔ اسلامی مذہبی متون کے مطابق اس کی توجیہہ حضرت ابراہیمی کے اپنے بیٹے اور بیوی کو چھوڑ کر جانے کے بعد اسماعیل علیہ السلام کے ایڑیاں رگڑنے سے منسوب ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ ہاجرہ اور شیرخوار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اس ویران بیابان میں چھوڑا تو بچے کو پیاس لگی۔ اس موقع پر ماں نے صفا ور مروہ کے درمیان بے قراری میں دوڑ لگائی اور اپنے رب سے مدد مانگی۔ اللہ رب العزت نے جبریل علیہ السلام کو بھیجا، جنہوں نے زمین اور پہاڑ کو اپنے پر سے ضرب لگائی۔ اس ضرب کو "ہزمۃ جبریل” کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مکہ کے پڑوس میں واقع پہاڑوں کے دامنوں میں شگاف پڑ گئے۔ جس میں پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود تھ، وہ بصورت چشمہ بہہ نکلا، جب وہاں پر آب زمزم کا چشمہ پھوٹا تو قریبی قبائل کے افراد نے یکے بعد دیگرے مکہ مکرمہ کو بسانا شرو ع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور اپنے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خانہ کعبہ تعمیر کرنیکا حکم دیا تاکہ یہ بستی لوگوں کیلئے جائے پناہ اور دارالامن بن جائے۔

جبکہ اس کی سائنسی توجیہ کے لئے آج کے موجود سعودی سائنٹسٹ Environmental engineering کے اسپیشلائزڈ ڈاکٹر انجینئر یحیی کوشک جو پانی کے امور کے پہلے سعودی ماہر اور زمزم کے کنوئیں کی تجدید کے منصوبے کے نگراں بھی ہیں۔ وہ زمزم کے سائنسی توجیہہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا تعلق پانی کے مخصوص سمتوں سے معینہ چٹانوں کے ذریعے گزرنے سے ہے۔ کوئی بھی پانی جو ان مقامات سے پھوٹے گا اور کنویں کی گہرائی میں گرے گا، یہ پہاڑوں کے اندر جمع شدہ پانی تھا جو ایک چشمے کے صورت ابل پڑا، مذہبی متون کے مطابق بھی یہ شیرخوار حضرت اسماعیل کے قدموں کے نیچے سے پانی پھوٹ پڑا تھا، یہ مقام آج کے موجود خانہ کعبہ سے 21 میٹر کے فاصلے پر ہے البتہ اُس وقت تک بیت اللہ تعمیر نہیں ہوا تھا۔ یہ پانی چٹانوں کے تین شگافوں کے ذریعے کنویں میں جمع ہوتا ہے، جو خانہ کعبہ کے نیچے اور صفا اور مروہ کی سمت پھیلی ہوئی ہیں، اور ایسا پانی جو پہاڑوں سے بہہ کر نکلے گا وہ آب زمزم جیسے ذائقے اور خصوصیات کا حامل ہو گا۔

ابتداء میں جو لوگ یہاں پہنچے ان کی خواہش یہی تھی کہ آب زمزم کے قریب انہیں رہائش حاصل ہوجائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آبادیاں آبی ذخائر کے اطراف ہی بسا کرتی تھیں، اور یہ ان کی مجبوری ہوتی تھی، یہیں پر خانہ کعبہ بھی بنایا گیا اور رفتہ رفتہ یمن کے کئی قبائل نے اس طرف ہجرت کی، قبیلہ بنو خزاعہ سمیت یہاں کئی قبائل نے قبل از اسلام کعبہ کی ذمہ داریاں نبھائیں، پانچویں صدی عیسوی میں قصہ بن کلاب کے پاس یہ ذمہ داری آئی اور قریش کو کعبہ کی ذمہ داریاں مل گئیں، ایک اور مزے کی بات ہے کہ قریش کے دور میں ہی یہ چشمہ قریب قریب سوکھ گیا تھا، اس عہد میں پھر یہاں چونکہ آبادی موجود رہی تو زمزم کے بعد متبادل کنوئیں اور چشمے کھودے گئے، جن میں مررہ بن کعب بن لوئی کا کھودا ہوا کنواں (الاسراء کا کنواں)، اور ایک کنواں جو "الروا” کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، یہ تاریخ میں موجود ہے، اس دوران آب زمزم کے چشمے کو کئی بار کھودا گیا مگر اس سے پانی دریافت نہ ہوسکا کیونکہ درست سورس کی جگہ دریافت نہ ہوسکی تھی، پھر قریش کے اس وقت کے سردار عبد المطلب نے اس چشمے کو دوبارہ کھودا تھا، اسلامی روایات کے مطابق اس دفعہ عبدالمطلب کو خواب میں مخصوص مقام کی بشارت ہوئی تھی، اس دفعہ جب گہرائی میں کھدائی کی گئی تو پانی نکل آیا، اس کے بعد اسے کنویں کی شکل دے دی گئی اور آج تک یہ پانی جاری ہے۔

چونکہ مکہ میں قبل از اسلام بھی حج کی مذہبی رسومات قائم تھیں، اور تجارتی مرکز اور تجارتی میکوں کی وجہ سے ماہ ذی القعدہ سے ہی یہاں پر اس پاس کی ریاستوں کے تجارتی قافلے اور زائرین حجاج آتے تھے، اسلام سے قبل قریش کے پاس کعبہ کی ذمہ داری تھی اس عہد سے خاندان قریش یہ خدمات انجام دیتا رہا، حتی کہ قریب از اسلام بھی حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت حضرت عباس ؓ رسول اللہﷺ کے چچا انجام دیا کرتے تھے۔ (موجود عہد میں آب زمزم کے حوض کا نام انہی کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے) اسلام آنے کے بعد بھی حج کا عمل اسلام کا حصہ ہی نہیں بلکہ پانچواں رکن بن گیا، اسلام کے بعد مسلم خلفائے اور بعد میں آنے والے سلاطین کے ادوار میں بھی کعبہ کی خدمت ہمیشہ سلاطین کی طرف سے جاری رہی اور کسی نہ کسی صورت یہ مسلم سلاطین کی ایک اہم ذمہ داری رہی، قریب تمام ادوار میں ایسا ہی رہا، لیکن سعودی ریاست کے عہد میں آب زمزم کے کنوؤں کی عمارت نہایت خوبصورت اور موزوں بنائی گئی ہے۔ زائرین کو آب زمزم فراہم کرنے کے تمام انتظامات کئے گئے، حالیہ سعودی ریاست سے پہلے بھی کعبہ میں باقاعدہ الزمازمہ کے نام سے ایک ادارہ موجود تھا جو 10افراد پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان کا تقرر انتخاب سے ہوتا تھا۔ یہ لوگ شیخ الزمازمہ کے معاون و مددگار ہوا کرتے تھے۔ شیخ الزمازمہ زمزم کے کنوئیں پر پانی نکالنے والوں کے شیخ کا تقرر کرتا تھا۔ اسے شیخ السقاۃ کہا جاتا تھا۔ شیخ الزمازمہ کو اس کنبہ کا بزرگ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاً ملاقاتیں کرتے اور ایک دوسرے کے احوال و کوائف دریافت کرتے اور ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے میں تعاون پیش کرتے تھے۔ شادی بیاہ، عیدین اور مختلف سماجی خوشیوں میں جمع ہوتے اور شیخ الزمازمہ جھگڑے بھی طے کیا کرتا تھا۔ ہر زمزمی خدمتگا کیلئے حرم میں ایک کمرہ ہوتا تھا، جہاں وہ اپنے برتن رکھا کرتے تھے۔ گھڑے، مٹکے ہوتے تھے۔ کمبل، چٹائی اور پیتل کے کٹورے ہوتے تھے۔ جن پر قرآنی آیات منقش ہوتی تھیں۔ زمزم سقے لایا کرتے تھے۔ زمزم کے کنویں سے مشک کے ذریعے زمزمی کے کمرہ پر پہنچایا کرتے تھے۔ یہ کام حج کے وقت فجر کی نماز کے بعد انجام دیا جاتا تھا، پانی ڈول سے نکالاجاتا تھا۔ مسجد الحرام میں ہر زمزمی کی ایک جگہ مخصوص تھی جہاں وہ فرش بچھاکر بیٹھتا تھا اور اس کے بچے حاجیوں کو مخصوص قسم کے کٹوروں میں زمزم پیش کیا کرتے تھے۔ ہر زمزمی کٹورہ پہ اپنا نشان لگایا کرتا تھا کہ اس کے کٹورے دوسرے زمزمی کے کٹورے سے جدا رہیں۔ زمزمی صراحیاں بھی رکھا کرتے تھے جن سے حاجی ، زائرین اور معتمرین زمزم پیا کرتے تھے ۔ صراحی پر کپڑا پڑا رہتا تھا۔ زمزم کا پانی حاجیوں کو ان کی قیام گاہ پر بھی پہنچایا جاتا تھا۔ حاجیوں کو ایک صراحی روزانہ پیش کی جاتی تھی۔ پورے حج کے موسم میں یہ سلسلہ چلتا تھا۔اس کے علاوہ مضان المبارک میں بھی زمازمہ کا کام بڑھ جاتا تھا۔ زمزمی رمضان میں فجر کے بعد سے تیاریاں شروع کردیتے تھے۔

سعودی ریاست قائم ہونے کے بعد بانی سعودی عرب شاہ عبدالعزیز نے مکہ مکرمہ کی پہلی حاضری کے موقع پر مسجد الحرام کی تعمیر و تزئین کا کام شروع کروایا تھا، قریب صرف آخری صدی میں یہ کنواں اپنی روایتی شکل بتدریج بدلنے میں مکمل کامیاب رہا، آج سے 96 برس پہلے سنہ 1340 ھجری میں سعودی ریاست کے بانی عبدالعزیز نے اپنے نجی اخراجات سے آب زمزم کی پہلی سبیل قائم کی، پھر 89 برس پہلے یعنی سنہ 1347 ھجری میں زمزم کے کنوئیں کے مشرق میں دوسری سبیل کھلوائی گئی، ابتدا میں آب زمزم کنوئیں سے ڈول کے ذریعے نکالا جاتا تھا۔ پھر پہلی بار پانی سے ڈول نکالنے کے بجائے قریب ستر برس پہلے سنہ1373 ھجری میں آب زمزم کو نکالنے کے لیے موٹر پمپ لگائے گئے، اور موٹروں کے زریعے ہی کنوئیں سے آب زمزم نکال کر پہلے ٹنکی میں ذخیرہ کیا جاتا اور پھر اس سے کنوئیں کے اطراف نلکے لگائے گئے جن میں ان پانی کو منتقل کیا جاتا، 65 برس پہلے سنہ1381 ھجری میں زمزم کے کنوئیں کی منڈیر کو تاریخ میں پہلی بار مطاف کے فرش سے 2.5 میٹر نیچے کردیا گیا۔

آگے چل کر مطاف کے نیچے تہ خانہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کا ایک حصہ مرد زائرین اور دوسرا حصہ خواتین کے لئے مختص کیا گیا، قریب چوالیس برس پہلے سنہ1400 ھجری میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی جنرل پریذیڈنسی نے حرم شریف کی سبیل کا خصوصی ادارہ قائم کردیا۔ تہ خانوں میں بھی نلکے نصب کئے گئے۔ قریب پچاس برس پہلے سنہ 1392 ھجری میں بالآخر ریاستی فیصلے سے ڈول کے ذریعے زمزم پلانے پر مکمل پابندی لگادی گئی اور آب زمزم کی سبیلوں کی صفائی باقاعدہ انتظامی صورت میں کی جانے لگی، آب زمزم کے پانی کو کنویں میں انسانی صحت کے مطابق رکھنے کے لئے اقدامات کئے گئے، سنہ 1399 ھجری میں پہلی بار بالآخر غوطہ خوروں کی مدد لی گئی تاکہ داخلی طور پر آب زمزم کے کنویں کا معائنہ کیا جائے، غوطہ خوروں نے کنوئیں کی پیمائش کی، اس کی صفائی کی گئی، اور اگلے ہی برس سنہ 1400 ھجری میں آب زمزم کا کنواں اندر سے صاف کیا گیا۔ کلورین اور دوسرے Order control اور algiside جیسے کیمیکل سے اس میں بیکٹریا اور بو کو ختم کیا گیا، کنویں کی دیواروں کو دھویا گیا، پھر قائم کی گئی سبیلوں کے ذریعے مسجد الحرام و مسجد نبوی کے زائرین کو آب زمزم کی فراہمی کے تمام انتظامات کو مکمل کیا گیا، آج سے 39 برس قبل سنہ 1405 ھجری میں جنرل پریذیڈنسی نے آب زمزم کے معائنے کیلئے مکمل لیباریٹری قائم کی۔ پھر آج سے قریب بیس برس پہلے سنہ 1424ھجری میں آب زمزم کے تہ خانے پر چھت ڈالی گئی، تہ خانہ میں موجود زمزم کی ٹونٹیاں صحن حرم میں منتقل کر دی گئیں۔ اس کی وجہ سے مطاف میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا۔ اس وقت تک پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے Chiller plants نہیں لگائے گئے تھے تو ایک کارخانہ جو برف کی سلیں تیار کرتا تھا اس کی مدد سے اب زم زم کو ٹھنڈا کرکے زائرین کو فراہم کیا جاتا تھا۔ پھر آب زمزم کا ادارہ شروع میں مختصر تھا، رفتہ رفتہ اسکا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا۔ واٹر کولر کی صفائی کی نگرانی، مقررہ مقامات پر واٹر کولرز رکھوانا، ان میں پانی بھروانا، نئے گلاس رکھوانا، پرانے اٹھوانا، سبیلوں کی صفائی، زمزم کی فراہمی میں حفظان صحت کے ضوابط کی پابندی پر امور ہے۔ زمزم کی تعقیم، مسجد نبوی کو آب زمزم کی فراہمی بزریعہ ٹینکرز کے زریعے مکہ سے مدینہ تک, یہ سب ریاستی سطح میں بطور اداراتی طور پر ہوتا ہے۔ اس ادارے کا بجٹ 6 کروڑ ریال سے زیادہ کا ہے۔ اور یہ ادارہ 16محرم 1402ھجری میں شاہی فرمان پر قائم ہوا تھا۔

ان تمام ادوار میں آب زمزم کے پانی کے لئے عربی میں کئی اور مخصوص نام بھی رائج رہے جن 60 سے زیادہ نام میں زمزم، سقیا الحاج، شراب الابرار، طیبۃ، برۃ برکۃ اور عافیہ ہیں۔ مکہ مکرمہ کے لوگ قدیم زمانے سے ہی اپنے مہمانوں کے اکرام کے لیے ان کا استقبال آب زمزم سے کیا کرتے تھے۔ اس پانی کو مٹی کی صراحیوں میں خوشبو کی دھونی دے کر مہمانوں کو پیش کیا جاتا تھا۔ اس مہک کے سبب یہ پینے والوں کو زیادہ مرغوب لگتا تھا۔ مکہ مکرمہ میں یہ روایت آج بھی باقی ہے، خصوصا ماہ رمضان میں افطار کے دسترخوانوں پر کھجور کے ساتھ صرف آب زمزم ہی پیش کیا جاتا ہے۔ آب زمزم کے متعلق بہت سارے فضائل موجود ہیں مگر کچھ غلط فہمیاں بھی ہیں، جیسے مکہ کے رہنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے مردوں کو تدفین سے قبل آب زمزم سے غسل دیا جائے۔ مگر یہ کوئی سنت یا مزہبی عمل نہیں ہے، بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ آب زمزم پینا، حج اور عمرہ کا لازمی جزو ہے، تو ایسا ھی ہرگز نہیں، آب زمزم کسی بھی وقت مستحب عمل ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آب زمزم سے کفن دھونا مستحب ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یا آب زمزم سے نہانا حرام ہے، زمانہ قدیم میں تمام پانی کی ضرورت یہی آب زم زم کا کنواں پوری کرتا تھا۔ یہ خیال بھی غلط ہے کہ مسجد الحرام سے زمزم باہر جانے پر اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ مذہبی اعتبار سے ایک متبرک پانی ہے، اس کی فضیلت کے لئے کئی احادیث موجود ہیں۔ سعودی عرب میں آج کے عہد میں اس کے لئے بہترین انتظامات موجود ہیں۔

بطور اسٹینڈرڈ زمزم کے پانی کو ثقیل یا بھاری سمجھا جاتا ہے، اس کیوجہ یہ ہے کہ اس میں میگنیشیم و سلفائیڈ کے اجزاء عام طور پر اسٹینڈرڈ پینے کے پانی کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہوتے ہیں، آب زمزم اس عہد کے اعتبار سے استعمال کا بہترین پانی تھا، مگر آج کے موجود انسان اور ورلڈ ہیلتھ کے اسٹینڈرڈ کے مطابق آج بھی اس کا pH اور TDS انسانی صحت کے مطابق پانی کے اوسط درجے پر نہیں ہے۔ لیکن ایسا پانی پینے سے عمومی طور پر کچھ نہیں ہوتا، عموما جو لوگ اسٹینڈرڈ پانی WHO کے اعتبار سے سمجھتے ہیں ان کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ یہ اسٹینڈرڈ ہر دور میں انسانی امیون سسٹم کی مطابقت سے بدلتے رہتے ہیں، اس کے علاؤہ مختلف خطوں کے لوگوں اور موسم کے اعتبار سے بھی اس کے اجزاء میں تبدیلی قبول کی جاتی ہے، وییسے کچھ برسوں پہلے تک WHO کے مطابق ذیا بیطس کا ٹیسٹ فاسٹنگ میں 150 تک قابل قبول تھا لیکن اب وہ 120 کردیا گیا ہے، بالکل اسی طرح کم ازکم پاکستانیوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ پینے کے پانی میں آج بھی دنیا بھر میں معدنی پانی یعنی Mineral Water کو انسانی صحت کے لئے سب سے بہتر پینے کا پانی سمجھا جاتا ہے، اور آب زمزم معدنی پانی ہے، بورنگ یا کسی اور ذریعے سے حاصل ہونے والا پانی نہیں ہے۔ پاکستان میں جو لوگ بوٹلنگ کے پانی کو منرل واٹر سمجھتے ہیں ان کی عقل پر بھی ماتم ہی ہے کیونکہ وہ معدنی پانی نہیں بلکہ پراسیس واٹر ہوتا ہے۔ ویسے بھی آب زمزم کی یلجو بوتلیں حجاج کو بسنتی جاتی ہیں وہ ISO9002 کی سرٹیفکیٹ یافتہ ہوتی ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

منصور ندیم

منصور ندیم بلاگر ہیں وہ پچھلے 15 برسوں سے سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں انہیں سماجی موضوعات پر لکھنا پسند ہے، اس ای میل ایڈریسmansoorhalaj6@yahoo.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے
Back to top button