زندگی ایک ایسی کھیتی ہے جو صبر کی زمین پر اُگتی ہے
ہری بھری فصل مٹی کے کھیت میں اگتی ہے نہ کہ سونے چاندی کے فرش پر… یہ محدود معنوں میں صرف زراعت کی بات نہیں۔ بلکہ یہ زندگی کا عالم گیر قانون ہے۔ خدا نے ہر چیز کے وجود میں آنے کے لیے ایک نظام مقرر کر دیا ہے۔ اسی خاص نظام کے تحت وہ چیز وجود میں آتی ہے۔ کسی اور طریقہ سے ہم اس کو وجود میں نہیں لا سکتے۔ یہی انسانی زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ زندگی ایک ایسا امتحان ہے جو صبرکی زمین پر دینا پڑتا ہے۔ زندگی ایک ایسی کھیتی ہے جو صبر کی زمین پر اُگتی ہے ۔خدا نے ابدی طور پر مقرر کر دیا ہے کہ زندگی کی تعمیر صبرکی زمین پر ہو۔ اب قیامت تک یہی ہونا ہے۔ تاہم اس کی تعمیر کے لیے کوئی دوسری زمین نہیں بنا سکتے۔
صبر کسی منفی چیز کا نام نہیں ہے‘ وہ سراسر ایک مثبت رویہ ہے ۔ صبر کا مطلب ہے … بے سوچے سمجھے کر گزرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا کام کرنا۔ جذباتی ردِ عمل کے بجائے شعوری فیصلہ کے تحت اپنا منصوبہ بنانا۔ وقتی ناامیدیوں میں مستقبل کی امید کو دیکھ لینا۔ حالات میں گھر کر رائے قائم کرنے کے بجائے حالات سے اوپر اُٹھ کر رائے قائم کرنا۔
ایک بیج کو آپ سونے کی پلیٹ میں رکھ دیں تو وہ اپنی زندگی کے سرچشموں سے مربوط نہیں ہوتا۔ وہ زندگی کے اسباب سے بھری ہوئی کائنات میں بے اسباب بنا ہوا پڑا رہتا ہے۔وہ اگنے یا پھوٹنے کی ساری صلاحیت رکھتے ہوئے اُگنے یا پھوٹنے سے محروم رہتا ہے۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ اگر وہ بے صبری کی حالت میں ہو تو وہ خدا کی سرسبز و شاداب دنیا میں ایک ٹھنٹھ کی ماند سوکھا ہوا پڑا رہے گا۔ لیکن صبر کو اختیار کرتے ہی وہ اچانک خدا کی زمین میں اپنی جڑیں پا لیتا ہے اور بڑھتے بڑھتے بالآخر پورا درخت بن جاتا ہے۔
جب آدمی حقیقی معنوں میں صبرکا ثبوت دیتا ہے تو وہ بندوں کی سطح پر جینے کے بجائے خدا کی سطح پر جینے لگتا ہے۔ دنیا کی تنگیوں سے گزر کر وہ آخرت کی وسعتوں میںپہنچ جاتا ہے۔ وہ بے معنی زندگی کے مرحلہ سے نکل کر بامعنی زندگی کے مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ صبر والا انسان ہی مومن ہے اور اسی کے لیے وہ ابدی انعام مقدر کیا گیا ہے جس کا دوسرا نام جنت ہے۔