کشمیر کی حریت قیادت کی زندگیوں کو لاحق خطرات

بھارتی حکومت نے معروف حریت پسند رہنماء یاسین ملک کو اب نشانے پر رکھ لیا ہے بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے )نے یاسین ملک کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے واضح رہے کہ گزشتہ سال نئی دہلی کی ایک عدالت نے یاسین ملک کو جھوٹے مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں مارچ 2019میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی تنظیم لبریش فرنٹ کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، وہ اس وقت نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

کشمیری حریت پسند رہنمائوں یا کارکنوں پر اذیت کے سلسلے یاغیرقانونی پھانسیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بلاشبہ آزادی کی تحریک قید و بند کی صعوبتوں اور قربانیوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ہر تحریک کو مدو جزر، نشیب و فراز اور خوشی و غمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ تحریکِ آزادی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔اس دوران غاصب قوت سے نبرد آزما ہونا یقینی امر ہے۔ یہی حال جموں و کشمیر کی تحریک آزادی اور اس سے وابستہ رہنمائوں و کارکنوں کا بھی ہے۔

یوں تو کشمیریوں کو آزادی کی خاطر اپنی تحریک کے آغاز سے ہی قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کر رہے ہیں،مگرپانچ اگست 2019کے بعدمودی کے مظالم کاسلسلہ تیزتر ہو گیا ہے مختلف طریقوں سے حریت رہنمائوں کو ٹھکانے لگایا جا رہا ہے، جھوٹے مقدمات میں کشمیری حریت پسندوں سے نہ صرف جموں و کشمیر کی جیلیں بھردی گئی ہیں، بلکہ ریاست سے باہر بھارت کی بدنام زمانہ جیلوں میں حریت پسندوں کو بڑی تعداد میں قید رکھا جارہاہے۔ زیادہ تر قیدی کالے قوانین کے تحت بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں تین ہزار سے زائدحریت رہنمائوں اور کارکنوں کو قید رکھا گیا ہے۔

اس وقت آزادی کشمیرکی بات کرنے والے جوحریت رہنماء بھارتی قیدمیں ہیں ان میں مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی، ایاز محمداکبر، شاہد الاسلام، معراج الدین کلوال، پیر سیف اللہ، فاروق احمد ڈار، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، خرم پرویز، مشتاق الاسلام، شریف سرتاج، محمد حیات بٹ،عبدالصمد انقلابی، مولانا عبدالمجید ڈار، مولانا مشتاق ویری، عبدالرشید دائودی، مولانا عبدالواحد کشتواڑی،انجینئرعبدالرشید،ظہوراحمدوٹالی ،احسن اونتو اور دیگر شامل ہیں۔جبکہ میرواعظ عمرفاروق سمیت درجنوں رہنماء گھروں میں نظربندہیں ۔

یہ توچندنام ہیں جوسامنے آئے ہیں ایسے ہزاروں گمنام رہنماء موجود ہیں جوبھارت کی کال کھوٹھڑیوں میں قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت قیادت جس طرح ایک عرصے سے قیدمیں ہے اور ان پر تیس سال پرانے مقدمات کھولے جار ہے ہیں یا دہشت گردی کی مالی اعانت(Terror Financing) اور منی لانڈرنگ جیسے بے سروپا الزامات لگائے جا رہے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ کشمیری حریت قائدین جیلوں سے رہا نہ ہونے پائیںاورانہیں اسی طرح جیلوں میں رکھ کرانہیں ٹھکانے لگایاجائے۔ افسوس ناک طورپر ان محبوس قائدین کے اہل خانہ کی جانب سے ان کے صحت کے حوالے سے مسلسل خدشات کے اظہار کے باوجودبھارت اورانسانی حقوق کی تنظیموں سمیت کوئی توجہ نہیں دے رہا۔

اس سے قبل بھارتی حکومت متعددکشمیری رہنمائوں کوعدالتی اورغیرعدالتی قتل کرچکی ہے جن میں 11 فروری 1984 کو مقبول بٹ اور نو فروری 2013 کو افضل گورو کی پھانسیاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح میرواعظ مولوی محمد فاروق کو نامعلوم مسلح افراد نے21مئی 1990کو سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر گولیاں مارکرشہیدکر دیا تھا، بارہ سال بعد 21مئی 2002کو خواجہ عبدالغنی لون کو اس وقت گولی مار کر شہید کر دیا جب وہ سرینگر کے مزار شہدا ء میں ایک اجتماع سے خطاب کے بعد واپس آ رہے تھے،بھارتی فورسز نے 2008 میں11 اگست شیخ عبدالعزیز کو اس وقت شہید کردیا جب وہ وادی کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی کے خلاف سری نگر سے کنٹرول لائن کی طرف ایک جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔

مئی2021میں تحریک آزادی کشمیرکے سرخیل اشرف صحرائی کو77سال کی عمراوودھم پورجیل میںدوران قید شہید کر دیا گیا۔ مئی2020 میں ان کے صاحبزادے جنید صحرائی آزادی کے سفر میں جام شہادت نوش کرگئے تھے ،ستمبر2021 میں بابائے حریت محمدعلی گیلانی اکیانوے برس کی عمرمیں طویل نظربندی کے دوران اللہ کو پیارے ہو گئے، اکتوبر2022 میں علی گیلانی کے داماد الطاف احمد شاہ بدنام زمانہ تہاڑجیل میں انتقال کرگئے۔وہ 2017سے قید تھے۔الطاف احمد شاہ کو قید کے دوران کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اس کے باوجود بھارتی حکومت نے انہیں رہا نہیں کیا۔اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں کہ جن میں کشمیری رہنمائوں کوحراستی قتل کیا گیا یا انہیں دہشت گردقراردے کر گولی ماردی گئی ۔

مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیرکی حریت قیادت کو توڑنے اور خریدنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر کےدیکھ لیے مگر بات بن نہیں پائی اس لیے اب حریت قیادت کو آہستہ آہستہ کرکے منظر سے ہٹایا جا رہا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے مودی کے مذموم عزائم کی تکمیل ہوسکے ۔اس کے لیے محبوس حریت قیادت آسان ہدف ہے کشمیری قیدیوں کی سلامتی کے متعلق اگرچہ بے اطمینانی ہمیشہ سے ہی موجود رہی ہے، تاہم پانچ اگست کے بعدیہ بے اطمینانی اب انتہائی تشویش میں بدل چکی ہے اور کشمیری قیدیوں کے تئیں بھارتی حکمرانوں کے عمومی رویہ کو دیکھتے ہوئے اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ مودی نے اگلے سال انتخابات سے قبل بھارت کی مختلف جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں، خاص طور پر قائدین کو نشانہ بناکر انہیں راستے سے ہٹانے کے ناپاک منصوبے پرعمل شروع کردیاہے اور یاسین ملک ان کاپہلا نشانہ ہیں ۔

یقینا یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے اور اس جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانا اور بھارت کے ظالمانہ رویوں کا راستہ روکنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ مگر ہمارا کردار وہ نہیں جس کی توقع ان محبوس قائدین کو ہم سے تھی ۔حریت قیادت سے جس ردعمل کی توقع تھی وہ آنہیں رہا،ان کی طر ف سے ایک پریس ریلیزجاری کردیناکافی نہیں حریت رہنمائوں کوعملی میدان میں نکلنا ہو گااور مضبوط لائحہ عمل دینا ہو گا ۔ اسی طرح قوم پرست اورلبریشن فرنٹ کے وہ رہنماء جوپوری دنیامیں پھیلے ہوئے ہیں جو آزاد کشمیر میں لوڈشیڈنگ پرتو مشرق و مغرب میں طوفان اٹھا دیتے ہیں پاکستان کے خلاف پوری مہم لانچ کردیتے ہیں۔

کیایہ ان کی ذمے داری نہیں بنتی کہ آج اگریاسین ملک کوسزائے موت دی جارہی ہے تووہ بھارت کے خلاف آوازاٹھائیں اوربین الاقوامی دنیامیں کوئی بڑا احتجاجی مظاہرہ منعقد کریں بھارت اور مودی کا بھیانک چہرہ بے نقاب کریں ؟یاسین ملک اور دیگر حریت رہنما کشمیر اور کشمیری قوم کے لیے یہ قربانیاں دے رہے ہیں وہ آزادی کے لیے اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں،وہ تواپنافریضہ اداکرچکے اوراپنی منزل متعین کرچکے ہیں اسی لیے گزشتہ سال جب یاسین ملک پرفردجرم عائدکی جارہی تھی تو انہوں نے جج سے مخاطب ہو کر کہاتھا، اگر آزادی مانگنا جرم ہے تو میں اس جرم اور اس کے نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ایک موقع پرجب اشرف صحرائی کو جیل سے ایڈوائزری کونسل کے جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے کہا:آپ کو اپنی صفائی میں کیا کہنا ہے؟ صحرائی نے جج سے کہا کہ فیصلہ میز پر آپ کے سامنے لکھا ہوا پڑا ہے،میرے بیانِ صفائی سے یہ کتنا صاف ہو گا؟ اس لیے آپ اس کو پڑھ لیں۔ میں صرف اتنا کہوں گا:
میری رات منتظر ہے کسی اور صبح نو کی
یہ سحر تمہیں مبارک جو ہے ظلمتوں کی ماری

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

عمر فاروق (صحافی)

عمر فاروق پچھلے 20 سال سے صحافت کے شعبہ رپورٹنگ سے منسلک ہیں، امور کشمیر، سیاسی اور مذہبی موضوعات پر وہ لکھتے ہیں۔اس ای میل ایڈریس aagahi313@gmail.com پراس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button