9 مئی کے پرتشدد واقعات نے تحریک انصاف کو کہاں لاکھڑا کیا؟

9 مئی کے بعد تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟
عمران خان سے پہلے جن سیاسی قائدین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ان کا حشر کیا ہوا؟
فوج کو کمزور کر کے مضبوط ریاست کا خواب کیسے پورا ہو سکتا ہے؟
مسلم ممالک کو کمزور کرنے کیلئے عوام اور فوج میں اعتماد کو ختم کیا گیا، لیبا، عراق، مصر کی مثال موجود ہے کیا پاکستان میں بھی اسی فارمولے کو آزمانے کی کوشش کی گئی؟
بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اندرونی سہولت کاروں کی ضرورت درکار ہوتی ہے، کیا ہمارے لوگ لاعلمی میں بیرونی ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں؟
ہم معاشی طور پر کمزور ہیں اگر عسکری طور پر بھی کمزور ہو گئے تو خطے کے دیگر ممالک بالخصوص بھارت کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے؟
مذکورہ سوالات کی روشنی میں دیکھیں تو تعجب کی بات نہیں کہ تحریک انصاف کے رہنما اور خان صاحب کے دیرینہ ساتھی ان کے بیانیے کے ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہو رہے؟
خان صاحب کے اپنے قریبی ساتھی ریاست مخالف بیانیے کے بعد ان کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں تو عام لوگ کیسے ساتھ دیں گے؟
ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نواز شریف تک جمہوری قائدین کی تاریخ کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت پر سیاست کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے جو کھیل شروع کیا ہے اس کا اختتام بہت جلد ہوا ہے۔ آج عمران خان سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ کہاں عمران خان کی مقبولیت اور کہاں موجودہ صورتحال کہ اپنے بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔
نومئی کے واقعات کی ہر مکتبہ فکر کی جانب سے مذمت کی جا رہی ہے حتیٰ کہ صدر مملکت عارف علوی نے بھی عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں کھل کر نو مئی کے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے اگر عمران خان نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں تو ان کا سیاسی بیانیہ کیا ہو گا؟
عمران خان نے جس بیانیے پر قوم کو تیار کیا ہے اس سے پیچھے ہٹنا آسان ہو گا نہ اس پر قائم رہنا آسان ہو گا۔
خان صاحب کا کہنا ہے کہ اگر سارے لوگ ان کا ساتھ چھوڑ جائیں تب بھی وہ تنہا کھڑے رہیں گے یہ کہنا آسان ہے مگر اس نعرے کے ساتھ الیکشن میں اترنا آسان نہیں ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اب چاہتے ہوئے بھی کارکنان کو احتجاج کی کال نہیں دے سکتے ہیں، کیونکہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ہر فرد کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہ چھپتا پھر رہا ہے، اطلاعات ہیں کہ پولیس کو مطلوب سینکڑوں لوگ تبلیغی جماعت میں جانے کیلئے تیار ہیں اور سینکڑوں لوگ جا چکے ہیں تاکہ ان کی جان خلاصی ہو سکے۔
تحریک انصاف قیادت اور کارکنوں پر جو مقدمات قائم ہوئے ہیں ان سے جلد چھٹکارا نہیں ملنے والا ہے۔ تحریک انصاف نے ہنگامہ آرائی میں ملوث کارکنوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے صدر ممکت اور عمران خان نے مذمت کی ہے، پی ٹی آئی کیلئے نو مئی کے واقعات کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ خان صاحب اب کارکنوں کو احتجاج کیلئے کال نہیں دے سکتے ہیں اگر دیں گے تو کارکنوں کی تعداد کم ہو گی کیونکہ مشکل کی اس گھڑی میں تحریک انصاف نے کارکنوں کا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، والدین پریشان ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
عمران خان کی طبیعت میں عجلت ہے متعدد عہدے سنبھالنے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے کے باوجود جو سنجیدگی درکار ہوتی ہے وہ خان صاحب میں مفقود ہے۔
ایسے ماحول میں تحریک انصاف الیکشن میں جاتی ہے تو اسے کئی کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کل تک رہنما تحریک انصاف کے ٹکٹ کیلئے زمان پارک کے سامنے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے آج پارٹی چھوڑنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف بظاہر بیک فٹ پر چلی گئی ہے لیکن اس ساری صورتحال میں ملک کا نقصان ہوا ہے۔ اہل سیاست کو اب بھی مذاکرات کے راستے بند نہیں کرنے چاہئے کیونکہ اگر ایسے ماحول میں الیکشن ہوتے ہیں یا ملتوی ہو جاتے ہیں تو ہنگامہ آرائی کا دائرہ کار بڑھ جائے گا۔ جس طرح اپنی مدت سے پہلے الیکشن نہیں ہو سکتے ہیں اسی طرح الیکشن میں تاخیر بھی غیر آئینی کہلائے گی اتحادی حکومت کا اصل امتحان پرامن اور شفاف الیکشن کا انعقاد ہے اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو الیکشن کے نتیجے میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلئے چیلنجز موجود رہیں گے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سید ذیشان علی کاظمی

سید ذیشان علی کاظمی صحافی ہیں، وہ گزشتہ 15 برسوں سے حالات حاضرہ، سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر لکھ رہے ہیں اس ای میل ایڈریس zeshansyedkazmi@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button