عمران خان کی گرفتاری و رہائی، مقاصد کیا تھے؟
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری اور فوری رہائی کے بعد چند سوالات نے جنم لیا ہے وہ سوالات یہ ہیں کہ آخر یہ کھیل کیوں کھیلا گیا، کس مقصد کیلئے کھیلا گیا اور کیا جس مقصد کیلئے یہ کھیل کھیلا گیا تھا وہ پورا ہو چکا ہے؟ اس ساری صورتحال میں کون کمزور ہوا ہے اور کس کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے اس کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں نو مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا، پی ٹی آئی کارکنان و قیادت نے پورے ملک میں بھرپور ردعمل دیا، احتجاج، جلاؤ گھیراؤ ہوا، ملکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو پچھلے چار روز سے بند کر رکھا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس کا نوٹس لیا عمران خان کو پولیس کے گیسٹ ہاؤس میں بھیج دیا۔ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کیلئے کہا۔ آج ہائی کورٹ میں عمران خان پیش ہوئے، اور عدالت نے دو ہفتوں کیلئے ان کی عبوری ضمانت منظوری کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ 17 مئی تک انہیں کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کیا جائے۔
عدالت سے ریلیف ملنے کے بعد عمران خان نے مسکراہٹ کے ساتھ وکٹری کا نشان بنایا، جو سیاسی حریفوں پر بجلیاں گرا گیا کیونکہ مخالف سیاسی جماعتیں یہ سمجھ رہی تھیں کہ کم از کم اگلے چودہ دن تک خان صاحب جیل میں رہیں گے عدالت کی مداخلت کے بعد ایسا ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ خان صاحب اب آزاد ہیں اور بظاہر سیاسی جماعتوں کیلئے پہلے سے زیادہ خطرناک بھی۔ اس سارے منظر نامے میں حکومت نے کیا حاصل کیا ہے؟ کیا حکومت نے عمران خان کو گرفتار کر کے خود کو کمزور کر لیا ہے؟
حکومت ایمرجنسی کے نفاذ کا سوچ رہی ہے عمران خان کے رہائی کے بعد ایمرجنسی کا کیا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے؟ عدالتیں عمران خان کو ریلیف فراہم کر رہی ہیں تو حکومت کے پاس مزید کیا آپشن باقی رہ گئے ہیں؟ کیا عمران خان کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری اور ن لیگ کی منصوبہ بندی ناکام ثابت ہوئی ہے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوالات ہر شہری کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں مگر ان سوالات کے جوابات دینے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں اکثر اوقات ناقص منصوبہ بندی کے تحت نتائج سے بے خبر ہو کر ایک اقدام اٹھا لیا جاتا ہے اور جب مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری پر ملک کا جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا، خطرناک بات یہ ہے کہ خاکم بدہن آگے اس سے بھی برا ہونا والا ہے۔ الیکشن کا انعقاد مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ چودہ مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے تو عدالت حکومت کے خلاف توہین عدالت کا فیصلہ سنا سکتی ہے، جس سے معاملات گمبھیر ہو جائیں گے شاید ہماری سوچ سے بھی زیادہ۔ اس لئے کہ فنڈز جاری نہ کرنے کا فیصلہ تنہا وزیر اعظم کا نہیں ہے بلکہ وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کا مشترکہ فیصلہ ہے تو کیا عدالت پورے ایوان کے خلاف فیصلہ دے گی؟ اگر عدالت کسی کی پروا کئے بغیر پوری کابینہ اور ایوان کے تمام ممبران کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہو گا۔ عدالت فیصلہ واپس بھی نہیں لے سکتی ہے اسی ہے مذاکرات کی بات گئی مگر مذاکرات بھی کامیاب نہیں ہو سکے، کیا اب بھی مذاکرات کی گنجائش موجود ہے اور کہیں نہ کہیں کسی سطح پر مذاکرات ہو رہے ہیں؟ اگر عمران خان مذاکرات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں تو کیا فوج مخالف بیانئے کے ساتھ الیکشن میں جانا چاہتے ہیں؟
تمام راستے بند نہیں ہوئے ہیں اس لئے مایوس نہیں ہونا چاہئے، مسئلے کا حل نکالنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے جیسا بنا دیا گیا ہے یہاں ہر کوئی اپنی انا کا اسیر ہے کوئی جھکنے کیلئے تیار نہیں ہے، اگر اہل سیاست ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر مل بیٹھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل کا حل نہ نکل سکے۔