ریڈلائن عمران خان یا ملکی وقار اور قومی ادارے؟

تحریک انصاف جو کل تک ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت تھی 9 مئی کے واقعات نے اسے بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کے بعد ان کے حمایتی سراپا احتجاج ہیں، پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کا مؤقف ہے کہ خان صاحب ان کی ریڈ لائن ہیں جسے عبور کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے احتجاج کے نام پر جو پرتشدد راستہ اختیار کیا ہے، یہ احتجاج نہیں فساد ہے، پی ٹی آئی کے احتجاج میں سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار فوجی تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ کور کمانڈر لاہور ہاؤس، پشاور میں ریڈیو پاکستان، الیکشن کمیشن اور اہم سرکاری عمارتوں کو جلا دیا گیا۔ پچھلے دو روز میں درجنوں گاڑیوں کو نذز آتش کیا گیا، کسی بھی اعتبار سے یہ احتجاج کے زمرے میں نہیں آتا، اس عمل کی شدید مذمت کی جانی چاہئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کو متنبہ کرتے ہوئے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو کام پچھلے 75 برسوں میں دشمن نہ کر سکا وہ سیاسی لبادہ اوڑھے ایک گروہ نے کر دکھایا ہے۔ جو افراد ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے ان کی شناخت کی دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر نے کسی جماعت یا شخص کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک گروہ نے منصوبہ بندی کے تحت سیاسی مقاصد کے اہداف کے لئے ہنگامہ آرائی کی ہے مگر پاک فوج نے فوری ردعمل نہ دے کر ان کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا ہے۔

پی ٹی آئی لاکھ انکار کرے کہ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں اس کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ قیادت کے اکسانے پر ہی کارکن باہر نکلے اور جذبات میں آ کر ملکی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ یاسمین راشد اور پی ٹی آئی کے دیگر قائدین کی آڈیو نے ساری حقیقت آشکار کر دی ہے جس میں وہ کور کمانڈر ہاؤس کو جلانے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، اس پورے منظر نامے میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف فوج کے سامنے آن کھڑی ہوئی ہے یہ کسی بھی اعتبار سے درست رویہ نہیں ہے۔ اگر بروقت ادراک نہ کیا گیا تو بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہنگامہ آرائی میں ملوث نوجوانوں پر قائم ہونے والے مقدمات کی نوعیت بھی مختلف ہو سکتی ہے، فوج اپنے طور پر ہنگامہ برپا کرنے والوں کی شناخت کر چکی ہے ورنہ پولیس یہ کام کرتی تو کافی وقت درکار ہوتا۔ بہت جلد ایسے افراد کے خلاف کارروائی شروع ہونے والی ہے نوجوانوں کے سرپرستوں کو طلب کر کے ان کے سامنے شواہد رکھے جائیں گے، عین ممکن ہے مقدمات میں دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں۔ یہ مقدمات ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد اور ان کے اہل خانہ کی زندگی اجیرن بنا دیں گے۔

تحریک انصاف جو کل تک ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت تھی 9 مئی کے واقعات نے اسے بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے، پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان نے روایت جذباتی پن کا مظاہرہ کیا اور اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ اس ہنگامہ آرائی کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے کرپشن کے خلاف بھرپور مہم شروع کی، انہوں نے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت پر کرپشن کے الزامات عائد کئے، اس مقصد کیلئے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں مخالف سیاسی قیادت کو کڑے احتسابی عمل سے گزار کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ اب جبکہ عمران خان پر کرپشن کا الزام لگا تو انہوں نے عدالتوں میں الزامات کا جواب دینے کی بجائے تصادم کا راستہ اختیار کیا۔ تحریک انصاف نے عمران خان کی گرفتاری پر جو ردعمل دیا ہے اس سے حکومتی مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ اگر عمران خان کا دامن صاف ہے تو پھر وہ عدالتوں کا سامنا کرنے سے گریزاں کیوں ہیں؟

چیئرمین تحریک انصاف پر الزام ہے کہ انہوں نے القادر ٹرسٹ میں ساٹھ ارب روپے کی کرپشن کی ہے، زمین کی لین دین کے معاہدے کو اپنی کابینہ کے اراکین سے بھی خفیہ رکھا گیا، اور اب اسی کرپشن کو چھپانے کیلئے عمران خان نے ملکی مفاد کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ پرتشدد واقعات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کرپشن سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جائے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حالیہ واقعات نے عمران خان کے کرپشن مخالف بیانئے کی قلعی کو کھول کر رکھ دیا ہے۔

قید و بند کی صعوبتیں اور جیلیں سیاسی قائدین کو عوام میں مقبول بناتی ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک عرصہ تک جیل میں رہ چکے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کے آصف زرداری نے چودہ برس جیل کاٹی ہے، اس کے برعکس عمران خان کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ وہ جیل میں نہیں رہ سکتے ہیں۔ آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ پر وہ نیب کی حراست میں ہیں انہیں بہر صورت مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا اس سے راہ فرار ممکن نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی قیادت کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری پولیس کی تحویل میں ہیں۔ نقص امن کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے دیگر قائدین کی گرفتاری بھی ممکن ہے، اگر تحریک انصاف تشدد کا راستہ اختیار نہ کرتی تو آج اس کی قیادت پابندسلاسل نہ ہوتی۔ پی ٹی آئی ریاست کو کمزور کرنے کی راہ پر ہے، مقبول سیاسی جماعت کو یہ رویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسا اقدام اٹھائے جو ریاست کو کمزور کرنے کے زمرے میں جاتا ہو۔

پی ٹی آئی کی سخت مؤقف پر ریاست نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، اگر یہی اقدام کوئی دوسری جماعت کرتی تو اس کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں آ چکی ہوتی۔ پی ٹی آئی کو مگر کئی بار مہلت دی گئی، اب ملک کے حالات خراب ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محض چند شرپسند افراد مظاہرے کر رہے ہیں عوام کا جم غفیر کہیں دکھائی نہیں دیا، ان شرپسندوں کے ساتھ کیسے نمٹنا ہے اور کیا سلوک کرنا ہے یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے، ریاست نے ابتدائً تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ابھی تک ریاست کی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے جب پولیس، رینجرز کے دستے گشت کریں گے تو ہنگامہ آرائی آسان نہیں ہو گی۔ جن شہروں اور علاقوں میں حالات زیادہ خراب ہیں وہاں پر فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ ریاست عوام کے جان و مال کی محافظ ہے قوم کو بلوائیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سید ذیشان علی کاظمی

سید ذیشان علی کاظمی صحافی ہیں، وہ گزشتہ 15 برسوں سے حالات حاضرہ، سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر لکھ رہے ہیں اس ای میل ایڈریس zeshansyedkazmi@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button